ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

پشاور میں دہشت گردی او ر افغان حکومت

تحریر: کرسٹینا گولڈبام

پاکستان کے شہر پشاور میں ایک خود کش بمبار کے حملے میں ایک سو سے زائد افراد شہید ہو گئے اور شہر کے محفوظ ترین علاقے میں واقع پوری مسجد ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ حملے کے بعد دھواں آسمان کو چھو رہا تھا اور سڑکوں پر خوف کا راج تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ یہ ہوا کہ دہشت گردی کے اس حملے نے اس شہر کو ایک بار پھر دس سال پہلے کی طرح ہلا کر رکھ دیا جب پشاور میں دہشت گردی کی مہم نے پوری قوم کو ایک عذاب سے دوچار کیا ہوا تھا۔ 2015ء کے بعد کے سالوں میں جب مقامی طالبان سمیت تمام عسکریت پسندوں کو اس علاقے سے پیچھے دھکیل کر افغانستان فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا تو پشاور کے شہریوں کو اندازہ تھا کہ اس کے بعد بھی دہشت گردی کے اکا دکا واقعات ہوتے رہیں گے۔

جب ایمرجنسی اہلکار ایک کے بعد ایک لاش کو ملبے سے نکال رہے تھے تو یہ سوال زور پکڑ گیا کہ کیا سیاسی اور معاشی بحران میں گھری ہوئی پاکستانی حکومت دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ سالہا سال کے دوران جتنے بھی خودکش حملے ہوئے تھے‘ ان میں یہ مہلک ترین سانحہ تھا جس میں 101 سے زائد شہری جاں بحق اور 217 افراد زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں سے زیادہ تر پولیس اہلکار تھے جو انتہائی سخت پہرے میں واقع مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جمع تھے۔ اس حملے سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان کا ایک گروپ‘ جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے‘طالبان کے زیر قبضہ افغانستان سے ایک مرتبہ پھر زور پکڑ رہا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن واشنگٹن کی ایک فیلو مدیحہ افضل کا کہنا ہے کہ ’’اس حملے کی شدت سے‘ جس میں پشاور شہر کے محفوظ ترین علاقے میں واقع مسجد میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ایک عشرہ پہلے کی طرح ایک بار پھر عدم تحفظ اور تشدد کی یاد تازہ ہو گئی ہے‘‘۔ پشاور شہر میں آج بھی اُن دنوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس حملے سے ہونیوالے جانی نقصان کا احساس بہت شدید ہے۔ اس متاثرہ شہر کے باسی اس ہفتے قطار اندر قطار تابوت دفنا رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر یہ سوچ کر پریشان تھے کہ کیا خونریزی کے دن دوبارہ آ گئے ہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو یہ ملک اب آگے کہاں جائے گا؟ شہر کا ایک 34 سالہ رکشہ ڈرائیور اکبر مہمند کہتا ہے کہ ’’پشاور میں چند برسوں سے امن قائم تھا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ خودکش حملے اور دہشت گردی واپس آ گئی ہے‘‘۔

گزشتہ چالیس سال کے دوران پشاور شہر زیادہ تر اس خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں پشاور اس جنگ کا مرکز بنا رہا جب افغان جہادی سوویت یونین کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے تھے۔ جب 2001ء میں امریکی سرپرستی میں افغان طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو بھی ہزاروں افغان جنگجوئوں اور القاعدہ کے ارکان نے افغان سر حد سے ملحق قبائلی علاقوں میں ہی پناہ لی تھی۔ کئی سال تک طالبان لیڈر پاکستان کے پشتون علاقوں سے اپنے لیے جنگجو بھرتی کرتے رہے جبکہ پاکستان کے عسکری ادارے انہیں یہاں سے باہر دھکیلنے میں مصروف رہے۔ 2007ء کے دوران عسکریت پسندوں نے پاکستانی طالبان کا گروپ بنانے کا اعلان کر دیا جسے تحریک طالبان  یعنی ٹی ٹی پی کا نام دیا گیا، جس نے پاکستان بھر میں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سارے عرصے میں پشاور کشیدگی کا مرکز بنا رہا۔ اسی عسکریت پسند گروپ نے دسمبر 2014ء میں پاکستان پر حالیہ تاریخ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا حملہ کیا جس میں آرمی پبلک سکول پشاور کے 147 بچے اور ان کے اساتذہ شہید ہو گئے جس کے بعد پاکستانی فوج نے بھرپور عسکری قوت کے ساتھ حملہ کیا اور علاقے سے ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کی اکثریت کا خاتمہ کر دیا۔

جب اگست 2021ء میں افغان طالبان نے دوبارہ کابل پر قبضہ کر لیا تو پاکستانی حکام نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ نئی طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو لگام ڈالنے میں ان کی مدد کرے گی۔ مگر ایک بار پھر یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے اراکین پر ہاتھ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ الٹا یہ مطالبہ شروع کر دیاکہ پاکستان ان کے گلے شکوے دور کرے۔ افغان طالبان نے گزشتہ سال کابل میں مذاکرات کا بندوبست بھی کیا تھا مگر مصالحت کاری کامیاب نہ ہو سکی؛ چنانچہ پاکستان کی حکومت اور طالبان حکومت کے تعلقات میں کشیدگی نمایاں رہی۔ ان مذاکرات کے دوران ہی پاکستانی طالبان کو ایک بار پھر ری گروپنگ کا موقع مل گیا۔ پاکستان کی ایک حسین ترین وادی سوات میں‘ جہاں کبھی طالبان نے مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا‘ جب وہاں کے باسیوں نے ایک بار پھر طالبان کا سیلاب امڈتے دیکھا تو انہیں دہشت گردی کی لہر ایک بار پھر اپنی طرف بڑھتی محسوس ہونے لگی۔ متمول کاروباری حضرات، منتخب نمائندوںاور ڈاکٹرز کو افغانستان کے علاوہ پاکستان کے اندر سے بھی گمنام فون کالز آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جن میں ان سے مطالبہ کیا جا رہا تھاکہ وہ بھتہ دیں یا سوات چھوڑ کر ملک کے کسی دوسرے شہر میں شفٹ ہو جائیں۔

26 سالہ یونیورسٹی طالب علم ماجد علی‘ جس نے کئی احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی تھی‘ ہمیں بتایا کہ ’’وادی کے لوگ قتل و غارت کی وجہ سے بے یقینی اور خو ف کے عالم میں یہاں رہ رہے ہیں۔ مگر یہاں کے عوام طالبان کے نام پر اس علاقے کا امن و امان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیںگے‘‘۔ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ پشاور میں حملہ اس وقت ہوا ہے جب پاکستان کو ایک سنگین سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا ہے اور اس کی پوری قیادت ان مسائل میں الجھی ہوئی ہے؛ چنانچہ حکومت کی توجہ ٹی ٹی پی اور داعش کی کارروائیوں کی طرف نہ ہو سکی۔ رواں ہفتے سیاسی اشرافیہ نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ شاید 2014ء کی طرح پاکستانی فوج ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کو ئی بڑا جوابی حملہ شروع کرنے والی ہے۔ مگر خدشہ ہے کہ ایسی کارروائی کرنے سے پاکستان کے افغانستان کی نئی طالبان حکومت سے تعلقات میں کشیدگی آ جائے گی۔ واشنگٹن میں ولسن سنٹر کے سائوتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی کے خلاف سب سے مؤثر ردِ عمل یہ ہو گا کہ ساری توجہ ٹی ٹی پی کی طاقت کے محور اور افغانستان پر مرکوز ہو جہاں اس وقت ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت مقیم ہے۔ اگر پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے کوئی عملی اقدامات کرنا ہوں‘ جو نوعیت کے اعتبار سے سرحد پار ہوں گے تو اس کے نتیجے میں افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کے ساتھ کشیدگی پیدا ہونا یقینی امر ہے مگر یہی واحد اقدام ہے جو دہشت گردی پر مکمل قابو پانے کے لیے پاکستان کو بہرصورت کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ بظاہر کوئی دوسرا آپشن نظرنہیں آتا‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسر چ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement