ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی جج کا انوکھا فیصلہ …(1)

تحریر: ڈیوڈ سیگل

ابتدا ئی ایام میں جج سکاٹ کپ ایک مضبوط، سخت گیر اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے والے انسان تھے۔ جن دنوں وہ وکالت کی پریکٹس کر رہے تھے‘ انہوں نے درجنوں لوگوںکو سنا تھا جنہوں نے حلفیہ یہ دعوے کیے کہ انہیں غلط سزا دی گئی ہے مگر انہیں کبھی کسی کی باتوں پر یقین نہیں آیا تھا؛ تاہم 2002ء میں جب انہوں نے لیو شو فیلڈ نامی ایک شخص‘ جو اس وقت تک اپنی بیوی کے قتل کے الزام میں ملنے والی عمر قید کے تیرہ برس جیل میں گزار چکا تھا‘ کے بارے میں سنا تو انہیں اس کی دیگر تفصیل سننے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی۔ جج سکاٹ کپ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ ’’مجھے خیال آیا کہ اگر یہ شخص بھی بے گنا ہ ہے تو پھر میں ملکہ سبا سے کم نہیں ہوں‘‘۔

جہاں تک ریکارڈ کی بات ہے جج سکاٹ کپ میں بظاہر ملکہ سبا جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کی عمر چھیاسٹھ سال ہے، سر اور داڑھی کے بال سفید ہو چکے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو اس کے اظہار کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کسی نے بائبل میں نہیں پڑھے ہوتے؛ تاہم آج صرف یہ کہنا کافی نہیں ہو گا کہ جج سکاٹ کپ کو نہ صرف لیوشو فیلڈ کی بے گناہی کا پورا یقین ہے بلکہ وہ اس کو ملنے والی سزا کو ایک سنگین غلطی بھی تصور کرتے ہیں۔ جو بھی یہ جاننا چاہتا ہے کہ جج سکاٹ کپ نے خیالات کی تبدیلی کا یہ سفر کیسے کیا تو اسے پچھلے سال نو حصوں پر مشتمل پوڈ کاسٹ ’’بون ویلی‘‘ دیکھنا چاہئے جس میں لیوشو فیلڈ کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ یہ پوڈ کاسٹ جرم کی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے‘ ان کہانیوں کا مقصد فہم و فراست اور عدل و انصاف کی ترویج ہے۔

مگر خرابی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ ’’بون ویلی‘‘ کوئی ایسی کہانی نہیں ہے۔ لیو شو فیلڈ آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ جج سکاٹ کپ پر ایک ہی جنون سوار ہے‘ وہ یہ کہ شو فیلڈ کو جیل سے کیسے رہا کرایا جائے اور وہ بھی کوئی معاضہ لیے بغیر۔ جو بات ان کے کولیگز کو حیران و پریشان کرنے والی ہے وہ یہ کہ جج سکاٹ کپ جو شارلٹ کائونٹی فلوریڈا میں 2014ء سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے‘ بیسویںجیوڈیشل سرکٹ کورٹ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے ہیں تاکہ وہ اپنا پورا وقت لیو شو فیلڈ کی جیل سے رہائی کے لیے صرف کر سکیں۔ اپنے ایک وڈیو انٹرویو میں جج سکاٹ کپ نے بتایا کہ ’’میں پیسہ اپنے میز پر چھوڑ کر جا رہا ہوں‘‘۔ 

حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ مزید نو سال اپنے اس عہدے پر کام کر سکتے ہیں۔ مگر ان پر کوئی قرض نہیں ہے جس کی ادائیگی ان کے ذمے ہو، ان کے بچے جوان ہو چکے ہیں اور وہ اپنے درختوںکے جھنڈ میں گھرے چھبیس ایکڑ کے گھر میں ایک پُرآسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو میںجو کچھ کرنے والا ہوں وہ خودغرضی پر مبنی ہے کیونکہ میں یہ سب کچھ اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے کر رہا ہوں۔ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے یہ سب کچھ کرنا ہے‘‘۔

’’بون ویلی‘‘ سیریز دراصل ’لاوا فار گُڈ‘ کی ایک کامیاب پیشکش ہے اور یہ کمپنی ہمیشہ سماجی انصاف جیسے مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ اسے پینتالیس لاکھ مرتبہ ڈائون لوڈ کیا جا چکا ہے اور ایپل پوڈ کاسٹ کے چارٹ پر یہ ساتویں نمبر پر آ گئی ہے اور اب سال کی بہترین پوڈ کاسٹس کی لسٹ پر بھی آ چکی ہے۔ لاوا فار گُڈ نے ابھی تک اس سے ہونے والی آمدنی کے حوالے سے اعداد و شمار جاری نہیں کیے اس لیے ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ بون ویلی لوگوں کے دل و دماغ جیتنے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے اور کتنا منافع کمایا ہے، جب سے پوڈ کاسٹ مارکیٹ میں ہجوم بڑھنا شروع ہوا ہے اس بار ے میں کچھ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔  جیسن فلوم اور جیف کیمپلر اس کمپنی کے مشترکہ بانی ہیں جنہوں نے پہلے لاوا ریکارڈ بنائی تھی‘ جس میں لارڈ اور کِڈ راک جیسے فنکار بھی شامل تھے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر مختلف قسم کے نتائج کی توقع کر رہے تھے۔ مسٹر کیمپلر نے ایک ای میل میں لکھا کہ ’’ہم جتنے بھی کیسز کور کرتے ہیں ہمارے نزدیک ان میں ترقی پسند پراسیکیوٹرز کے الیکشن میں کامیابی کا اہم معیار قوانین اور پالیسیز کے نتائج ہوتے ہیں‘‘۔

بون ویلی کو گلبرٹ کنگ نے رپورٹ کیا ہے جنہوں نے اس سے پہلے ’’ڈیول اِن دی گرییو‘‘ بھی لکھی تھی۔ یہ چار سیاہ فام لوگوں کے بارے میں ہے جن پر فلوریڈا میں 1949ء میں ایک سفید فام عورت کی آبروریزی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس نے 2013ء میں پولیٹز پرائز بھی جیتا تھا۔ مسٹر کنگ جو نیویارک شہر میں رہتے ہیں‘ سمجھتے ہیںکہ فلوریڈا سے ان کا اس وقت دل اچاٹ ہو گیا تھا جب انہوں نے فلوریڈا کانفرنس آف سرکٹ ججز میں تقریر کرنے کے لیے 2018ء میں گلف آف میکسیکو کے ساحل پر واقع نیپلز کا وزٹ کیا تھا۔ اتفاق سے جج سکاٹ کپ نے بھی اس میں شرکت کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ گلبرٹ گاٹ فریڈ بھی اس پروگرام میں رنگ بھرنے کے لیے اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا جلدی جانے کا پلان ترک کر دیا کیونکہ اب وہ بالکل ہی مختلف بات سوچ رہے تھے۔ ’’یہی وہ شخص ہے جس کی مجھے تلاش تھی‘‘۔

اگلے دس برس تک وہ کسی ایسے لکھاری کی تلاش میں رہے جو اس کیس پر مزید تحقیقات کر سکے جو ہر وقت ان کے ذہن پر چھایا رہتا ہے۔ جب مسٹر کنگ نے اپنی تقریر ختم کی تو جج سکاٹ کپ نے فوری طور پر ان کے پاس جا کر انہیں اپنا بزنس کارڈ دیا۔ اس کارڈ کی پشت پر انہوں نے مسٹر لیو شو فیلڈ کا نام اور فلوریڈا ڈیپارٹمنٹ کوریکشن کا نمبر لکھ دیا تھا۔ انہوں نے اس کارڈ پر یہ بھی لکھا تھا کہ ’’یہی نہیں کہ اسے غلط سزا دی گئی بلکہ وہ ایک بے گناہ انسان بھی ہے‘‘۔ اس کے چند روز بعد ہی مسٹر کنگ کی کال موصول ہوئی۔

 جج سکاٹ کپ نے انہیں مزید تفصیلات سے بھی آگاہ کیا کہ جب وہ بطور وکیل پریکٹس کر رہے تھے اس وقت ہی مسٹر شو فیلڈ کے بارے میں ان کے شکوک و شبہات ختم ہو گئے تھے اور نئی شہادتیں ملنے کے بعد انہوں نے 2005ء میں بھی ان کی وکالت کی تھی۔ وہ اس وقت بھی پراسیکیوٹرز کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام ہو گئے تھے کہ انہوں نے ایک غلط انسان کو جیل میں قید کرا دیا ہے۔ کچھ دیر بعد سکاٹ کپ خود بھی پہلے ایک پراسیکیوٹر اور بعد میں جج بن گئے تھے۔ انہوں نے فون پر بات کرتے ہوئے مسٹر کنگ سے کہا کہ ’’اگر ہم اس غلطی کا ازالہ نہ کر سکے تو خدا ہم پر رحم کرے‘‘۔ انہوں نے کنگ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ ایک مرتبہ وہ اس کیس کا مسودہ ضرور پڑھ لیں۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement