ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی جج کا انوکھا فیصلہ …(2)

تحریر: ڈیوڈ سیگل

مسٹر کنگ کو یاد آیا کہ ’’مجھے فوری طور پر ریاستی کیس کے ساتھ ایک مسئلہ نظر آیا‘‘۔ حکومتی موقف کے مطابق قتل کا واقعہ لیو شوفیلڈ کے ٹریلر گھر میں پیش آیا تھا ’’مگر متعدد تحقیقاتی کرائم یونٹس کو اس جگہ سے خون کا ایک قطرہ بھی نہ مل سکا۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘۔ یہ وقوعہ 1987ء کو پیش آیا جب اٹھارہ سالہ میشل شوفیلڈ کی لاش لیک لینڈ (فلوریڈا) کی ایک ڈرینج کینال سے برآمد ہوئی تھی اور اس کے جسم پر خنجر کے 26 زخم تھے۔ پہلا شک اس کے شوہر پر گیا جس سے اس کی صرف چھ ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک رنگ ساز تھا مگر کسی بار بینڈ کے ساتھ گٹار بھی بجاتا تھا۔ مقدمے میں پراسیکیوٹرز نے شوفیلڈ پر الزام لگایا کہ وہ ایک تشدد پسند اور غصیلا انسان ہے، اس نے کئی بار مسز شوفیلڈ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا اور ان کی ہمسائی نے بتایا کہ میں نے اس رات دیکھا تھا کہ وہ کوئی بھاری چیز اپنے گھر سے لے جا رہا تھا جو کوئی لاش ہی ہو سکتی تھی۔ لیو شوفیلڈ پر قتل کا جرم ثابت ہو گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ جب جیل میں اس کا پوڈ کاسٹ کے لیے بالمشافہ انٹرویو کیا گیا تو شوفیلڈ کا فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’’سچ پوچھیں تو میرا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ میرا جسم اس قدر بے حس ہو گیا تھا، میرے لیے تو یہ بات ویسے ہی ناقابل یقین تھی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے‘‘۔ حکومت کے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا جس سے لیو شوفیلڈ کا اس قتل کے ساتھ کوئی لنک ثابت ہوتا ہو۔ لیکن اس کی بیوی کی کار سے شوفیلڈ کے فنگر پرنٹس ملے تھے۔ 

کریسی کارٹر ایک سوشل ورکر تھی‘ جو شوفیلڈ سے اس وقت جیل میں ملی تھی جب اس نے لائف سکلز میں کریسی کو اسسٹ کیا تھا جو وہاں پڑھاتی تھی۔ دونوں نے 1995ء میں شادی کر لی تھی مگر کریسی کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ فنگر پرنٹس کس کے ہو سکتے تھے۔ کریسی نے ایک فون انٹرویومیں بتایا ’’مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ سالہا سال تک میں اس کے بارے میں کیسے بات کروں؟ اور میں نے جن چند لوگوں کے ساتھ یہ بات شیئر کی وہ بھی مجھ سے بات نہیںکرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ میرا اس مسئلے سے کوئی نہ کوئی تعلق تھا‘‘۔ ان لوگوں میں سے ایک پولیس افسر سنڈی مینارڈ اس کی سابق دوست تھی اور اس کی سکاٹ کپ سے شادی ہو چکی تھی۔ 2004ء میں کریسی کارٹر بار بار سنڈی مینارڈ سے درخواست کرتی رہی کہ وہ اس شخص کو تلاش کرنے میں مدد کرے جس کے فنگرپرنٹ مسز شوفیلڈ کی کار والے پرنٹس سے میچ کرتے ہوں۔ چند ہفتے بعد سنڈی مینارڈ نے ایک حیران کن خبر سنائی کہ وہ فنگر پرنٹ جرمی سکاٹ کے ہیں جو ذہنی طور پر ایک معذور اور تشدد پسند انسان ہے جس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ اپنی سابق گرل فرینڈ کو عین اسی ویران جگہ پر لے کر جایا کرتا تھا جہاں سے مسز شوفیلڈ کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ اسے ایک شخص کو لوٹنے اور تشد د کرکے مارنے کے جرم میں عمر قید کی سزا بھی ہوئی تھی۔ جب سکاٹ کپ کو ان فنگر پرنٹس کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے اس کا وکیل بننے پر رضامندی ظاہر کر دی کیونکہ اسے امید تھی کہ پراسیکیوشن جلد کوئی ایسا ثبوت فراہم کر دے گی جس سے اس کی عمر قید ختم کرانے میں مد دملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں سمجھا کہ اب حکومت کے لیے یہ مقدمہ اتنا مشکل نہیں رہا اور شوفیلڈ جلد جیل سے رہائی پا لے گا۔ لیکن یہ بالکل غلط‘ غلط‘ غلط تھا‘‘۔

اگرچہ سکاٹ کپ نے 2017ء میںکیس کی سماعت کے دوران مضبوط دلائل اور ثبوت فراہم کر دیے تھے مگر شوفیلڈ کو پھر بھی جیل میں رہنا پڑا۔ اسی دوران شوفیلڈ نے بی اے کی ڈگری حاصل کر لی اور ہر اتوار کو جیل کی سیمینری میں ڈیڑھ سو سے زائد جیل کے قیدیوں کو مسیحیت کی تعلیم دیتا۔ گزشتہ تیس برس کے دوران اس کی اپنی بیوی سے ملاقات بھی نہیں ہو سکی۔ اس جوڑے نے 2000ء میں اپنی بیٹی کو اڈآپٹ کیا تھا اب اس کے بھی دو بچے ہیں۔ اس کا جیل ریکارڈ انتہائی شاندار اور ناقابلِ اعتراض ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ وہ اتنے سال جیل میں رہا ہے۔ مگر تین مواقع پر ریاست کے اٹارنی آفس کے وکلا نے پیرول بورڈ کے لیے ہونے والی سماعت کے دوران یہ موقف اپنایا کہ شوفیلڈ ایک سنگدل قاتل ہے اور اسے جیل میں ہی مرنا چاہئے۔ اسی آفس سے کوئی سماعت نمبر چار میں بھی جائے گا جو مارچ یا اپریل میں متوقع ہے۔ فلوریڈا کے دسویں جیوڈیشل سرکٹ کے لیے ریاست کے چیف اسسٹنٹ اٹارنی جیکب ایس آر کا کہنا تھاکہ ’’اگر ہمیں لگا کہ شوفیلڈ یا کوئی اور قیدی بے گناہ ہے تو ہم فوری طور پر اس ناانصافی کا ازالہ کریں گے لیکن ریاست اتنی زیادہ شہادتوں کو نظر اندا ز نہیں کر سکتی جن سے شوفیلڈ مجرم ثابت ہوتا ہے‘‘۔ جیکب نے دلائل کے لیے دو صفحات پر مشتمل ڈاکیومنٹ بھی ساتھ اٹیچ کیا اور اس کے ساتھ ایک جملہ لکھا‘ جو کچھ یوں ہے ’’ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف پوڈ کاسٹ کو پروموٹ کرنے کے لیے ہے۔ یہ وہ جملہ ہے جو جج سکاٹ کپ پہلے بھی سن چکا ہے‘‘۔ اس نے آئندہ ہونے والی سماعت کے بارے میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے خدا سے یہ امید ہے کہ کوئی میری موجودگی میں یہ بات کہتا ہے۔ ہاں! ہمارے پاس یہاں بہت زیادہ دولت ہے‘‘۔

وہ اور مسٹر شوفیلڈ اب دونوں دوست بن چکے ہیں‘ جس میں مسٹر شوفیلڈ کی زیادہ کوشش شامل ہے اور دوسری وجہ ان دونوں کا مسیحی ہونا بھی ہے۔ پچھلے ماہ اس پوڈ کاسٹ کی ایک بونس قسط بھی جاری کی گئی تھی جس میں جج سکاٹ کپ کی بولنگ گرین فلوریڈ ا کی جیل میں شوفیلڈ سے ملاقات ہوتی ہے تاکہ سماعت کے دوران اس کی وکالت کرنے کی اجازت لے سکیں۔ مسٹر کنگ کے ساتھ ایک اور انٹرویو میں شوفیلڈ کہتا ہے کہ ’’مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میرا سپر ہیرو واپس آ چکا ہے‘‘۔ شاید مسٹر شوفیلڈ کو رہاکرانا کسی سپر ہیرو کا ہی کام ثابت ہو جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلی پیرول سماعت پر میڈیا کی موجودگی سے ریاست خوفزدہ ہو جائے اور سماعت سے بھاگ جائے۔ پراسیکیوٹرکا سماعت پر حاضر ہونا لازمی نہیں ہوتا۔

جج سکاٹ کپ کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے شوفیلڈ کے لیے اپنے اتنے عمدہ کیریئر کو کیوں دائو پر لگا دیا اور جہاں سابق وکلا ناکام رہے ہیں‘ انہیں اپنی کامیابی کا کیسے یقین ہے۔ تو کچھ توقف سے بولے ’’میں بیکار بیٹھے بیٹھے تھک چکا ہوں اور میں ریاست کو موقع دے رہا ہوں کہ وہ جب چاہے اس شخص کو مار دے۔ ان لوگوں نے اس انسان کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے۔ اس کے بارے میں جھوٹ بولا گیا۔ اس کی کردارکشی کی گئی اور میں اب ایسا نہیں ہونے دوں گا‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement