ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ڈونلڈ ٹرمپ اور خاندانی انتشار

تحریر: وِل لیچ

میری کزن نے‘ جو ریاست الینائے کے مضافات میں رہتی ہے‘ پچھلے دنوں مجھے فیس بک پر ایک نوٹ بھیجا تھا۔ میری پرورش بھی الینائے میں ہوئی تھی اور میرے خاندان کے زیادہ لوگ وہیں رہتے ہیں۔ اسے پتا چلا تھا کہ عنقریب میرا ایک ناول شائع ہونے والا ہے‘ اس نے کہا کہ مجھے آپ پر فخر ہے اور میں بڑی بے صبری سے اس ناول کو پڑھنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ہم جلد اکٹھے لنچ کریں گے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ بہت اچھی بات ہے۔ پھر اس نے کہا کہ سیاست پر کوئی بات نہیں ہو گی۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ ایسا ہی ہو گا۔ ہم دونوں اس وعدے کی پاسداری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ بھر کی فیملیز‘ جو ٹرمپ کے دورِ صدارت میں آپس میں تقسیم ہو گئی تھیں‘ پچھلے دو برسوں سے آپس میں جڑنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر ہمیں ایک بار پھر سے اسی خاندانی انتشار کا مسئلہ درپیش آنے والا ہے۔ میں خوفزدہ ہوں اور میرے خیال میں میری کزن اور بہت سے دوسرے امریکی بھی اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ وہ جلد ایک بار پھر اسی دوراہے پر کھڑے ہوں گے۔ سیاست نے امریکی خاندانوں کو بری طرح تقسیم کر دیا ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ جوبائیڈن کا دور صدارت اس تقسیم کا زخم بھرنے کا موقع ہے۔ لیکن شاید یہ زخم ایک بار پھر ہرے ہونے والے ہیں۔

صدر بائیڈن کے دورِ صدار ت میں یہ ایک عمومی تاثر تھا کہ اگر انہوں نے اپنے فرائض منصبی درست انداز میں ادا کیے تو کسی امریکی کو ان کی طرف زیادہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہو گی۔ وہ کام تھا ’’حالات کو نار مل بنانا‘‘۔ صدر بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایگزیکٹو برانچ کو ایک بار پھر حکومت کا ایک فعال بازو بنا دیں گے؛ تاہم ملک کے اندر امریکی عوام کی اکثریت کے نزدیک معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ہمیں ایک ایسی دنیا میں واپس آنا تھا جہاں لوگ ہر وقت سیاست پر باتیں کرکرکے آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں ہیں۔ یہ ایک کوشش تھی کہ خواہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی‘ لوگ سب کچھ بھلا کر گھروں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہیں۔ سیاست تو چل رہی ہے یا یہ سوچ لیں کہ سمجھ دار لوگ سیاست کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کے دورِ صدارت نے یہ سب کچھ ناممکن بنا دیا تھا۔ ہر طرف سیاست ہی سیاست تھی اور ایسا لگتا تھا کہ آپ ہر وقت دنیا کی حالتِ زار پر چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ امریکہ بھر میں خاندان سیاست کی وجہ سے بٹ گئے تھے۔ بچے والدین کے ساتھ، بھائی بھائی کے ساتھ اور ایک نسل دوسری نسل کے ساتھ برسرپیکار تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔ ٹرمپ کی وجہ سے میری ایک دوست کی اپنے سسرال کے ساتھ اتنی شدید لڑائی ہو گئی کہ وہ اپنی تین سالہ پوتی کو دیکھنے کے لیے بھی نہیں آئے۔ 2015-21ء کے دورا ن سیاسی ماحو ل نے امریکی سماج کو بری طرح مسخ کر دیا اور شاید سب سے زیادہ نقصان ہمارے خاندانی نظام کو پہنچا ہے؛ تاہم گزشتہ ایک‘ دو سال کے دوران ایک تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اختلافِ رائے تو ختم نہیں ہوا‘ دنیا آج بھی پہلے کی طرح خطرات سے بھری ہوئی ہے مگر جب سے ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس سے نکلے ہیں تو آپ کو کسی حد تک سکھ چین نصیب ہوا ہے۔ حالات کافی حد تک معمول پر آ گئے ہیں۔ اب ہر وقت صدر کی طرف سے ٹویٹس نہیں ہوتے۔ بہت سے مسلم ممالک کے سفر پر پابندی کا سلسلہ رک گیا ہے۔ صدر بائیڈن نے کسی بھی ملک کے لیے اس طرح کے گھٹیا الفاظ نہیں کیے۔

معاملات مکمل طور پر درست نہیں ہوئے۔ آج بھی لوگ معمولی باتوں پر لڑ جھگڑ رہے ہیں؛ تاہم کووڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اب اس وبا میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے لوگ دنیا میں گھومنے پھرنے کے قابل ہوئے ہیں‘ اب انہیں یہ خوف نہیں ہوتا کہ ابھی کوئی دھماکا ہو جائے گا۔ شاید آپ نے کچھ لوگوںکے ساتھ مل کر سب کچھ درست کر لیا ہو۔ اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کا ان کے ساتھ کتنا اختلافِ رائے ہے مگر آپ ان سے پیار کرتے ہیں۔ آپ یہ پہلاقدم اٹھا سکتے تھے کیونکہ طویل عرصے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی زندگی پر سیاست اس طر ح قابض نہیں ہے۔ مگر حال ہی میں سی این این سے پتا چلا ہے کہ افق پر ٹرمپ کے طوفانی بادل ایک بار پھر نظر آرہے ہیں۔ امریکی عوام کی اکثریت جو بائیڈن اور ٹرمپ کے مابین یہ میچ دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتی اور اس کی کئی وجوہا ت ہیں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں کوخدشہ ہے کہ وہ ہنگامہ خیز وقت جس میں سے ہم ابھی ابھی گزرے ہیں اور جن سیاسی لڑائیوں نے چھٹیوں میں ہمارے ڈنر ٹیبل پر قبضہ کر لیا تھا وہ سب کچھ دوبارہ آنے والا ہے۔ ہم تو ابھی ابھی اس میں سے گزرے ہیں۔ کیا ہم پھر اسی عذاب میں سے گزریں گے؟ اگر ٹرمپ کی جگہ ران ڈی سینٹس نے ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کر لی توکیا ہو گا؟ شاید ا س کے بعد ایک بالکل ہی نئی جنگ شروع ہو جائے۔ اگر ٹرمپ نامزد نہ ہو سکے تو جنگ کتنی خطرناک ہو گی اور اگر یہ جنگ ختم بھی ہو گئی تو بھی امریکی قوم کے زخم مندمل نہیں ہو سکیں گے۔

میرے اور میری کزن کے درمیان بہت سی باتوں پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے جیسا کہ میں نے اس کی فیس بک پر دیکھا کہ جب پانچ جنوری 2021ء کو لوگوں کو بسوں میں بھر بھر کیپٹل ہل پر حملے کے لیے لایا جا رہا تھا تو وہ خوش ہو رہی تھی۔ میں سمجھی کہ اب ہمارے تعلقات ختم ہو گئے ہیں۔ ہم بچپن کی دوست ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے مجھے برے القاب سے مخاطب کیا۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو گیا کہ کیا کچھ تبدیل ہو گیا ہے؟ اس کے ساتھ میرا اختلاف مٹ رومنی کی نامزدگی سے شروع ہو کر اس حیرانی تک پہنچ گیا کہ کیا اس نے حقائق کو چھو کر بھی نہیں دیکھا؛ تاہم حقیقت اپنی جگہ موجود ہے۔ میں اپنی کزن سے پیار کرتی ہوں اور وہ میرے ساتھ پیار کرتی ہے۔ میرے لیے تو یہ تصور بھی محال ہے کہ اگر وہ میری زندگی میں نہ ہوتی تو میں کیا ہوتی اور مجھے یقین ہے کہ وہ بھی میرے جیسے خیالات رکھتی ہے۔ وہ مجھے ہمیشہ سے جس طرح جانتی ہے ایسے شاید چند ہی لوگ ہوں گے۔ مجھے اس کے ساتھ از سر نو رابطے استوار کرکے بہت مزہ آیا اور میں سوچ رہی تھی کہ ’’اگر 2020ء میں ہمار ے تعلقات برقرار رہ گئے تو یہ ہمیشہ ہی قائم رہیں گے۔ لیکن کیا یہ دوسری مرتبہ بھی قائم رہ سکیں گے؟ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتی‘‘۔ میرے خیال میں امریکہ بھرمیں بے شمار خاندان کچھ ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔

ہم اس بارے میں بات کرنے سے گریز کر سکتے ہیں مگر عنقریب ایک دھماکا ہونے والا ہے جو ہم سب کے پرخچے اڑا دے گا۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کروڑوں امریکی شہری ٹرمپ‘ بائیڈن مقابلے کے حوالے سے اتنے محتاط کیوں ہیں تو جلد آنے والے طوفان سے آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement