جنوبی ایشیا میں بالادستی کا بھارتی خواب …(2)
تحریر: مجیب مشال
یہ دکھانے کے لیے کہ بھارت کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں‘ نریندر مودی نے جی20 سربراہی کانفرنس کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ متعدد سائیڈ لائن ملاقاتیں بھی کیں۔ سربراہی اجلاس کے پہلے دن نریندر مودی نے افریقی یونین کو گروپ میںشامل کرنے کا اعلان کر دیا۔ افریقی یونین کے چیئرمین اور کوموروس کے صدر ازالی اسومانی کو گلے لگانے کے لیے وہ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے تھے۔ ذاتی گرم جوشی کے یہ مناظر چین کے صدر شی جن پنگ کے دور رہنے والے سخت گیر رویے سے بالکل متصاد م نظر آئے؛ تاہم بھارت شروع سے اپنے طاقتور ہمسائے کے ساتھ براہ راست کسی قسم کی محاذ آرائی سے محتاط اور گریزاں تھا۔ بھارتی حکام نے چین کی کھل کر تعریف کی کہ اس نے جی 20 سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کی بھرپور سپورٹ کی ہے۔ شاید بھارت اپنا حلقہ اثر قائم کرنے پر پور ی طرح فوکس کیے ہوئے تھا۔ جیسے جیسے اس کی معیشت ترقی کر رہی ہے‘ اس نے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک تک اپنی تجارت کو توسیع دے دی ہے۔ اس نے اپنے تعلقات استوار کرنے کے لیے راہ ہموار کر لی ہے۔ اس حوالے سے مشرقِ وسطیٰ، امریکہ اور دیگر ممالک میں مقیم کامیاب اور انتہائی مؤثر بھارتی نژاد تارکین وطن نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
اس کے پاس وسائل کی کمی ہے مگر اس نے دستیاب وسائل کے ذریعے ہی نیک نامی کمانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ کووڈ کے زمانے میں اس نے کئی ضرورت مند ممالک کو ویکسین کی شپمنٹس بھیجیں۔ بہت سے ممالک کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنا کر دینے کی آفر کی۔ جی 20 کے صدر کی حیثیت سے اس نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کر لیا ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارت نے دنیا بھر سے ایک سو سے زائد غریب اقوام کے رہنمائوں کو ایک ورچوئل ایونٹ کے ذریعے اکٹھے ہونے کا موقع فراہم کیا تھا اور اس اجتماع کو ’’وائس آف گلوبل سائوتھ سمٹ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ نریندر مودی نے ان عالمی رہنمائوں کو بتایا کہ ’’دنیا کی تین چوتھائی آبادی ہمارے ممالک میں رہتی ہے۔ ہمیں بھی اپنا موقف پیش کرنے کے لیے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔ چونکہ عالمی حکمرانی کا 80 سالہ پرانا ماڈل آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے‘ اس لیے ہمیں اس ابھرتے ہوئے عالمی نظام کو تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہئے‘‘۔ اس اجتما ع کو ’برین سٹورمنگ سیشن‘ کا نام دیا گیا۔ مگر اس میںچین کے لیے بھی ایک پیغام تھا۔ اسے اس سیشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی نہ جی 20 کے دیگر رکن ممالک کو بلایا گیا تھا۔ شاید بیجنگ کو اس پر زیادہ تشویش نہ ہوئی ہو۔ ’چائنہ گلوبل سائوتھ پروجیکٹ‘ نامی ایک ویب سائٹ کے ایڈیٹر ایرک اولینڈر کہتے ہیں کہ ’’بلاشبہ چین بھارت کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے، خاص طور پر ایشیا میں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے امریکہ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں؛ تاہم گلوبل سائوتھ کی قیادت کے حوالے سے دونوںکی راہیں الگ الگ ہیں۔ چین کو اس بات کا مکمل یقین اور اعتماد ہے کہ بھارت ان بنیادی میدانوں میں چین کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا جن کا ترقی پذیر ممالک کے ساتھ گہرا تعلق ہے، مثال کے طور پر ڈویلپمنٹ فنانس، انفراسٹرکچر کے پروجیکٹس اور تجارت وغیرہ‘‘۔
حال ہی میں برکس کا جو اجلاس ہوا تھا جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ سمیت تمام رکن ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس کے دوران بھی دونوں ممالک کے درمیان پایا جانے والا تفاوت بہت نمایاں نظر آ رہا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود کو ایک سال سے گلوبل سائوتھ کے نمائندے اور ترجمان کے طور پر پیش کرنے میں مصروف رہے مگر برکس اجلاس کے دوران یہ نمایاں نظر آ رہا تھا کہ سارا بھرپور اور شاہی پروٹوکول چین کے صدر شی جن پنگ کے حصے میں ہی آیا تھا۔ برکس کے سربراہی اجلاس کے دوران عالمی رہنمائوں اور ان کے وفود کے درمیان سائیڈ لائن پر جو بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں‘ ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب چین کے صدر شی جن پنگ عالمی رہنمائوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے تشریف لائے تو نریندر مودی بھی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ اس اجلاس کے دوران چین کے صدر کے لیے الگ سے ایک بڑی سیٹ کا انتظام کیا گیا تھا جو ایک پورا صوفہ تھا۔
یوریشیا گروپ ایک سیاسی رسک کنسلٹینسی ہے اس کی افریقن ٹیم میں شامل ایک سینئر تجزیہ کار زیاندہ سٹرمین کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’’پیسہ بولتا ہے۔ خواہ یہ بھارت ہو یا امریکہ ہو یا یورپ ہو۔ اگر یہ چین کا مقابلہ اور سامنا نہیں کر سکتے یا فنڈنگ کو رول اوور کرنے میں اتنے سنجیدہ نہیں ہوتے جتنا کہ چین ہے‘ تو قیادت کا تاج چین کے سر پر ہی سجا رہے گا اور یہ ممالک کبھی چین کی جگہ نہیں لے سکتے‘‘۔ چین کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ اس پوزیشن سے محروم ہو جائے۔ اسی لیے وہ ہر لمحے بہت محتاط اور چوکنا رہتا ہے کہ بھارت کس حد تک امریکہ اور مغرب کی طرف جھکائو رکھتا ہے کیونکہ اس کے اس جھکائو کا واحد مقصد چین کے عروج کا راستہ روکنا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری ترجمان سمجھے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں لکھا ہے کہ ’’امریکہ کی سرپرستی میں مغربی ممالک کی خواہش ہے کہ وہ گلوبل سائوتھ کو تقسیم کرنے اور ترقی پذیر ممالک میں چین کی حیثیت اور مقام کو کمزور کرنے کے لیے بھارت کو اس کے خلاف استعمال کریں‘‘۔ مگر بھارت پچھلے ایک سال سے گروپ 20 کی سربراہی کر رہا ہے، یوں وہ ایک طرف بین الاقوامی سٹیج پر تیز رفتار قومی ترقی کے خوشگوار احساس سے لطف اندو ز ہو رہا ہے اور عین اسی وقت دوسری طرف گلوبل سائوتھ کے ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سربراہی اجلاس کے دوران جن بھارتی حکام کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی‘ ان سب کا کہنا تھا کہ گروپ 20 کے سربراہی اجلاس میںہمیں جو بھی کامیابیاںملی ہیں‘ وہ ان تمام ترقی پذیر اقوا م کی مشترکہ کاوشوںکا ثمر ہے جو بھارت کے گرد اکٹھی ہو گئی تھیں جن میں خاص طور پر برازیل، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا شامل تھے۔
چند مہینوں کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ایک بڑے انتخابی معرکے میں اترنے والے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو جب زیادہ تر عالمی رہنما سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد اپنے اپنے ممالک کو روانہ ہو گئے تو نریندر مودی نے اپنی کامیابی اور فتح کا جشن منانے کے لیے اجلاس کی کوریج کرنے والے سنٹر کا دورہ کیا۔ وہ ٹی وی کے عملے کو دیکھ کر مسکرائے، ہاتھ ہلایا اور ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنوائیں۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)