غزہ: بچوں کا قبرستان …(1)
تحریر: راجہ عبدالرحیم
نو سالہ خالد جودے ننگے پائوں روتا ہوا بڑی تیزی سے مردہ خانے میں سفید کفن اور کمبلوں میں لپٹی درجنوں میتوں کی طرف جا رہا تھا۔ ’’میری ماں کہاں ہے؟‘‘۔ اس نے نیویارک ٹائمز کے فوٹو گرافر سے پوچھا ’’میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں، خلیل کہاں ہے؟‘‘۔ اس نے سسکیاں لیتے ہوئے اپنے بارہ سالہ بھائی کے بارے میں پوچھا۔ مردہ خانے کے ملازم نے ایک سفید کفن کوکھولا تاکہ خالد اپنے بھائی کا چہرہ چوم سکے۔ پھر اس نے اپنی آٹھ مہینے کی بہن کو الوداع کہا۔ ایک اور کفن کھولا گیا تو اِس میں اُس کی بہن کا خون سے اٹا چہرہ نظر آیا۔ جب اس نے ہسپتال کے سٹاف کے سامنے اپنی بہن کو پہچانا تو وہ ایک بار پھر سے سسکیاں لینے لگا۔ اس کا نام مِسک تھا۔ اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو مِسک کے چہرے پر گر رہے تھے۔ اس نے اپنی بہن کی پیشانی کو چھوتے ہوئے سرگوشی کی کہ ’’تمہیں پا کر ماں کتنا خوش تھی‘‘۔ اس کے قریبی عزیزوں نے بتایا کہ وہ تین بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی تھی اس لیے پوراخاندان اسے پا کر بہت خوش تھا۔ اس کے والدین کو بیٹی کی شدید خواہش تھی۔ وہ پیدا ہوئی تو اس کی ماں خوشی سے نہال تھی۔ وہ اسے رنگ برنگے کپڑے پہنتاتی تھی۔ اس کے گھنگھریالے بالوں کو شوخ رنگ کے کلپس لگاتی تھی۔ خالد نے بہتے آنسوئوں سے اپنی ماں، باپ، بڑے بھائی اور چھوٹی بہن کو خدا حافظ کہا۔
ان کے رشتے داروں اور مقامی صحافیوں نے بتایا کہ جب 22 اکتوبر کو فضائی حملہ ہوا تو دونوں عمارتیں‘ جن میں اس کا پورا خاندان اور بہت سے عزیز و اقارب پناہ لیے ہوئے تھے‘ زمیں بوس ہو گئیں۔ خالد کے تین عزیزوں نے بعد میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ جودے فیملی کے 68 لوگ اس حملے میں جاں بحق ہوئے جو اس رات وسطی غزہ کے علاقے دیر البالا میں اپنے بستروں میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف خالد اور اس کا سات سالہ بھائی زندہ بچے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جودے قبیلہ‘ جس کی کئی شاخیں ہیں‘ یہ لوگ کئی نسلوں سے فلسطین میں آباد ہیں۔ یہ لوگ عموماً ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں؛ تاہم ان حملوں سے قبل کچھ لو گ اپنا گھر بار چھوڑ کر شمالی غزہ کی طرف چلے گئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے اس سوال پر کوئی ردعمل دینے سے انکار کر دیا کہ اس فیملی کو فضائی حملے میں شہید کر دیا گیا ہے۔ آخر میں جودے فیملی کے تمام مرنے والوں کو ایک طویل قبر میں ایک دوسرے کے پہلو میں لٹاکر دفن کر دیا گیا۔ ر شتے داروں نے ان کی تدفین کی تصاویر بھی دکھائیں۔ خالد کی بہن مسک کی بھی مرنے سے کچھ دیر پہلے کی فوٹیج اخباری رپورٹرز کو دکھائی گئی۔
اقوام متحدہ نے وارننگ دی تھی کہ غزہ ہزاروں بچوں کا قبرستان بن گیا ہے۔ اتنی شدید بمباری کی گئی ہے کہ ہسپتال بھی ملیامیٹ ہو گئے ہیں۔ بہت سے بچے گم ہو گئے ہیں، مرنے والوں کی لاشیں تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے کے نیچے دفن ہیں اس لیے مرنے والوں کی صحیح تعداد بتانا ممکن نہیں ہے۔ فلسطین کے محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک پانچ ہزار سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس علاقے میں مرنے والوں کی جس طرح گنتی کی جا رہی ہے‘ اقوام متحدہ کے کئی عہدیدار اس سے بخوبی آگا ہ ہیں اور ان کے مطابق یہ تعداد قابلِ بھروسہ ہے۔ یو این حکام نے جنگوں کی بدولت مرنے والے بچوں کے بارے میں جو مصدقہ تفصیلات فراہم کی ہیں‘ ان کے مطابق گزشتہ پورے سال میں دنیا کے دو درجن ممالک میں ہونے والی جنگوں میں مجموعی طور پر 2895 بچے شہید ہوئے جن میں یوکرین جنگ میں مرنے والے بچے بھی شامل ہیں جبکہ پچھلے چھ ہفتوں کے دوران صرف غزہ میں پانچ ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے حملے کر کے اسرائیلی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور معذور لوگوں کو قتل کیا جبکہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سویلینز کو کم سے کم نقصان ہو۔ لیکن اسرائیل کے اپنے بیان کے مطابق اس نے آج کی تاریخ تک غزہ پر پندرہ ہزار فضائی حملے کیے ہیں جن میں جنوبی غزہ پر کیے گئے حملے بھی شامل ہیں اور اسے اکیسویں صدی کی ہولناک ترین بمباری کہا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک انتہائی گنجان آباد پٹی میں ہو رہا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی فو ج نے اس کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں ہزاروں بچے بھی موجود ہیں اور اس بات نے عالمی برادری کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے قریبی اتحادیوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔
غزہ میں فلسطین کے محکمۂ صحت کے حکام نے اس بمباری میں مرنے والوں کی جو تعداد بتائی تھی‘ شروع میں بائیڈن حکومت نے اس پر کچھ سوالات اٹھائے تھے مگر اب اس کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان حملوں میں اندازوں سے کہیں زیادہ عام فلسطینی شہری جاں بحق ہوئے ہیں اور یہ بائیڈن حکومت کی طرف سے اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ اس وقت جتنے سویلینز کے مرنے کی بات کی جا رہی ہیں‘ حقیقت میں یہ تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ دیار البالا کے اقصیٰ ہسپتال کے مردہ خانے میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی لاشیں لائی گئی ہیں کہ مردہ خانے کے ڈائریکٹر یاسر ابوعمر کہتے ہیں کہ مجھے تدفین کے لیے کفن کے کپڑے کو کاٹ کراس کا سائز چھوٹا کرنا پڑا تاکہ اتنی بڑی تعدا دمیں بچوں کی لاشوں کو کفن میں لپیٹ کر ان کی تدفین کی جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس جن بچوں کی لاشیں لائی گئی ہیں وہ کٹی پھٹی تھیں اور زیادہ تر کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ بہت ظلم ہو رہا ہے۔ ہم نے آج تک اتنی بڑی تعداد میں مرے ہوئے بچوں کو نہیں دیکھا۔ ہم ہر روز روتے ہیں، ہم بچوں کو دفنانے کی تیاری بھی کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ رو بھی رہے ہوتے ہیں‘‘۔
غزہ کی پٹی ایک گنجان آباد علاقہ ہے جس میں بیس لاکھ سے زائد فلسطینی آباد ہیں۔ اس سے پہلے ہونے والی جنگوں میں فلسطینی بچوں کے والدین اپنے بچوں کو گھر کے الگ الگ کمروں میں سلاتے تھے تاکہ اگر فضائی حملے سے گھر کے ایک حصے کو نقصان پہنچے تو دوسرا حصہ محفوظ رہے۔ لیکن اس مرتبہ اتنی شدید بمباری کی گئی ہے کہ غزہ کے مکین کہتے ہیں کہ اندھا دھند اور کسی وارننگ کے بغیر یہ بمباری کی گئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر رکھا ہوا ہے اور انہیں اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کرکے ان کے گھروں پر چھوڑا ہوا ہے تاکہ بمباری کی صورت میں ان کے بچنے کے زیادہ سے زیادہ چانسز ہوں۔ کئی والدین نے اپنے بچوں کے جسموں پر ان کے نام کھدوا دیے ہیں تاکہ حملے کی صورت میں اگر وہ مارے جائیں، یا گم ہو جائیں تو ان کی شناخت ممکن ہو سکے۔ (جاری)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)