اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مہنگائی بلند ترین سطح پر!

گزشتہ ماہ کے دوران مہنگائی گزشتہ ایک سال کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی۔ ادارۂ شماریات کے مطابق اپریل میں مہنگائی کی شرح گیارہ فیصد سے زائد نوٹ کی گئی تھی جبکہ مارچ میں یہ شرح قریب نو فیصد رہی۔ گزشتہ برس کے آغاز میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی؛ تاہم اگلے دو‘ تین ماہ کے دوران اس میں کمی آئی اور اپریل 2020ء میں یہ آٹھ فیصد کے قریب آ گئی اور دسمبر تک یہی شرح تھوڑے بہت فرق کے ساتھ برقرار رہی جبکہ رواں سال جنوری میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی جب یہ 5.7 فیصد کی حد تک آ گئی تھی۔ حکومت کی جانب سے اس کمی کا بھرپور کریڈٹ بھی وصول کیا گیا اور اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے 31 جنوری کو ایک ٹویٹ میں اسے معاشی شعبے کی بڑی خوشخبری قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کم کرنے کی حکومتی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ معاشی ٹیم کو کہہ دیا ہے کہ ہوشیار رہیں اور یقینی بنائیں کہ مہنگائی قابو میں رہے؛ تاہم یہ خوشگوار سپنا جلد ہی ٹوٹ گیا اور فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد اور مارچ میں 9.1 تک جا پہنچی‘ جبکہ اپریل کی شرح کا اگر جنوری سے مقابلہ کریں تو یہ قریب دوگنا بنتی ہے۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے کھلا چیلنج ہے‘ آخر قیمتوں میں اس قدر تیزی سے اضافے کے اسباب کیا ہیں؟

یہ صورتحال واضح ہونی چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم کی ان ہدایات کے سراسر برعکس ہے جن میں معاشی ٹیم کو مہنگائی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے اسے کنٹرول میں رکھنے کی تاکید کی گئی تھی۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی میں بنیادی اضافہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوا ہے جبکہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے نان فوڈ آٹمز کی قیمتوں میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں قیمتوں میں عمومی اضافے کو اس کا جواز قرار دیا جا سکتا ہے مگر یہ حتمی وجہ نہیں کیونکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اونچ نیچ کا رجحان پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں کا مستقل فیچر بن چکا ہے اور قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں نظر آتا ہے۔ دیہی علاقے زرعی شعبے سے جڑے ہونے کی وجہ سے خوراک کی ٹوکری تصور کیے جاتے ہیں مگر حالیہ کچھ عرصے کی قیمتوں کے تجزیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خوراک کی ٹوکری بھی نئے دور کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ اس معاملے میں اب شہر اور دیہات یکساں متاثر ہو رہے ہیں۔ خوراک کی قیمتوں کو بلا جواز اونچ نیچ سے کیوں نہیں بچایا جا سکا‘ حکومت کو اس کے اسباب تلاش کرنا ہوں گے۔ بظاہر اضافے کے بنیادی محرکات میں پیداوار کا بحران اور منڈی کے محرکات سر فہرست ہیں؛ چنانچہ خوراک کی قیمتوں کے حوالے سے تسلی بخش صورتحال یقینی بنانے کے لیے سطحی اقدامات کے بجائے پائیدار اور حقیقی انتظامات ضروری ہیں۔ شاید ہمارے اداروں کو خوراک کی ملکی ضروریات اور پیداوار کا صحیح اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں ہمارے تخمینے فرسودہ ہو چکے ہیں اور جب تک ان کی بہتری پر کام نہیں کیا جاتا طلب اور رسد کے مسائل اور قیمتوں کی کھینچا تانی کو کامل حد تک بہتر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے قابل بھروسہ مردم شماری‘ زرعی سروے اور کراپ رپورٹنگ کا بہتر ین انتظام بنیادی طور پر ضروری ہے۔ زرعی پیداوار کے درست اعدادوشمار حاصل کیے بغیر خوراک کی صورتحال کا پیشگی اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ کراپ رپورٹنگ کا درست میکنزم موجود ہو گا تب ہی حکومت ملکی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی خاص فصل کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی پالیسی وضع کر سکتی ہے۔

صرف اندازوں یا از کارِ رفتہ کلیوں سے اس کام کو بہترین انداز میں انجام دینا ممکن نہیں۔ زرعی شعبے میں ان اقدامات کے علاوہ حکومت کو منڈی کی جانب بھی رجوع کرنا پڑے گا اور یقینی بنانا ہو گا کہ منڈی کے کرتا دھرتا خوراک کی ضروریات میں لوگوں کا استحصال نہ کر سکیں۔ حکومت اس سلسلے میں روایتی منڈیوں کے نظام عمل کی بہتری‘ شفافیت اور مسابقت کی فضا یقینی بنانے کے اقدامات کرے۔ اب جبکہ ای کامرس نے پیدا کار اور صارف کو براہ راست ایک دوسرے سے ملانے کا صحت مند عمل یقینی بنا دیا ہے تو حکومت کیوں نہ کاشت کاروں کو ای کامرس کے فوائد سے بہرہ مند ہونے کے مواقع فراہم کرے تاکہ صارف اور پیدا کار کے درمیان سے آڑھتی کا کردار نکل سکے اور خالص اور تازہ اجناس کھیت سے صارف کے گھر تک براہ راست اور نسبتاً کم نرخوں میں پہنچ سکیں؟ خوراک کے شعبے میں ای کامرس کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو کاشت کاروں کی خصوصی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہ عمل کاشت کار کے لیے مالی فوائد کا سبب بھی بنے گا جبکہ صارفین کو تازہ‘ خالص اور نسبتاً سستی اجناس ملنا شروع ہوں گی۔ کاشت کاروں کی انجمنوں کی سطح پر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اعتدال اور توازن پیدا کرنے کے لیے حکومت کو متنوع اقدامات یقینی بننانا ہوں گے۔ ان کے بغیر یہ سمجھنا کہ قیمتیں متوازن سطح پر برقرار رہیں گی‘ بعید از قیاس ہے۔ حکومتی مشینری کے متحرک ہونے سے یا دیگر عوامل کے نتیجے میں ممکن ہے کچھ وقت کے لیے قیمتوں میں اعتدال آئے‘ جیسا کہ رواں سال جنوری میں آیا‘ مگر اس صورتحال کو مستقل قائم رکھنے کے لیے اوسط سطح سے آگے کے اقدامات ضروری ہیں‘ جبکہ توانائی کا مسئلہ توانائی کے قابل تجدید وسائل کو بروئے کار لانے سے حل ہو گا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement