اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی ترقی کا خواب کیونکر شرمندہ تعبیر ہو گا؟

مہنگائی‘ بے جا ٹیکس‘ آئی ایم ایف کی من مانی اور غربت و بیروزگاری سے لاحق خطرات کے حوالے سے وزیر خزانہ شوکت ترین کے تاثرات عام پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا کہ مہنگائی کے خلاف آخری حد تک جائیں گے‘ مہنگائی کے ستائے عوام کیلئے مژدۂ جاں فزا ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ ان دعووں کا عملی اظہار کب ہوگا؟ اگر وزیر خزانہ کا مافی الضمیر حکومتی سوچ کا آئینہ دار ہے تو یہ باتیں وزیر خزانہ کے علاوہ حکومت کے دیگر اہم عہدیداروں کی زبانی بھی سنائی دیتیں؛ تاہم ابھی تک ایسا دکھائی نہیں دیا۔ عوام کے مسائل پر ہمدردی کا رسمی اظہار الگ بات ہے اور اس حوالے سے حکومتی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دینا دوسرا معاملہ؛ تاہم وزیر خزانہ شوکت ترین حالیہ دنوں نیچے اوپر کئی بار یہ باتیں دہرا چکے ہیں کہ مہنگائی کے مسائل سے نمٹا جائے گا اور جس طرح آئی ایم ایف کہہ رہا ہے اس طرح نہیں کرسکتے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وفاقی سطح پر وزیر خزانہ کی تبدیلی کے ساتھ حکومت کی معاشی پالیسی میں بھی بدلاؤ آیا ہے‘ مگر اس پالیسی کے اثرات کا بیتابی سے انتظار ہے کہ مہنگائی میں کمی واقع ہو‘ آئی ایم ایف کے ساتھ ان شرائط پر بات چیت کی جائے جو پاکستانی معیشت کے ذمہ داروں کی نظر میں معیشت کی بحالی کیلئے ناگزیر ہیں۔ یہ نقطہ نظر آئی ایم ایف کے روایتی نقطہ نظر سے سراسر مختلف ہے؛ چنانچہ عالمی مالیاتی ادارے کو اپنی سوچ کا قائل کرنے کیلئے بھی حکومت کو کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ بادی النظر میں ملکی معیشت کے دور رس فوائد اور استحکام کا امکان انہی تجاویز میں مضمر ہے مگر عالمی مالیاتی ادارے سے ان تجاویز کو تسلیم کروانا اصل کام ہے۔

آئی ایم ایف کی گلا گھونٹنے والی سخت تجاویز کے برعکس ملکی معیشت کو تقویت فراہم کرنے اور آگے بڑھانے کا تصور اصولی طور پر درست اور مبنی برحقیقت ہے مگر اسے عملی طور پر کیسے نافذ کرنا ہے‘ اس حوالے سے حکومت کی پالیسی واضح اور عملی ہونی چاہیے؛ چنانچہ مالیاتی ادارے کی پیش کردہ ’’اصلاحات‘‘ کے متبادل اقدامات پیش کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ حکومت کو اس سلسلے میں اقتدار کے بقیہ دورانیے کے اختصار کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ حکومت کی نصف سے زائد مدت پوری ہو چکی ہے اور اس دورانیے میں معاشی میدانوں میں کوئی معرکہ انجام نہیں دیا جا سکا جبکہ بلند ترین سطح کی مہنگائی‘ معاشی نمو میں بے پناہ گراوٹ اور گرتی ہوئی سرمایہ کاری نے اس دور پر کساد بازاری کا سایہ فگن رکھا ہے۔ ایسے حالات سیاسی جماعتوں کے لیے ناقابل تلافی منفی اثرات کا سبب بنتے ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت کو بھی اس معاملے میں استثنا حاصل نہیں؛ چنانچہ 2023ء کے انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو تیاری کرنی چاہیے۔ لازمی ہے کہ معاشی نمو بڑھانے کے جن خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ کرتے ہیں انہیں عملی طور پر نافذ کیا جائے۔ روزگار کے مواقع اور برآمدات کا حجم بڑھانے کیلئے یہ ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں پاک چین اقتصادی راہداری کے امکانات کو بھی بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ اقتصادی راہداری سے ایک بنیادی امید یہ ہے کہ اس سے چینی صنعتوں کو پاکستان میں لایا جائے گا اور یہ صنعتیں یہاں سے اپنی مصنوعات برآمد کریں گی‘ مگر پچھلے دو اڑھائی برسوں کے دوران راہداری منصوبے پر پیشرفت بھی محلِ نظر ہے۔ کئی اہم منصوبے تعطل کا شکار محسوس ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے متعدد ذیلی منصوبے بھی۔ اقتصادی راہداری کے اکنامک زونز کی تکمیل میں سست روی سے صنعت کاری کا رجحان سست رو ہے۔ اب وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ چین سے کہیں گے کہ دوسرے ملکوں کے بجائے پاکستان میں صنعتیں لگائے‘ مگر یہ بات اگر اب تک نہیں کہی گئی تو حکومت کی معاشی شعبے میں اس سے بڑی ناکامی کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟

اگر پیش رفت کا عالم یہ ہے تو چھ فیصد تک شرح نمو اور بیس لاکھ نوکریاں کیونکر پیدا کی جا سکتی ہیں؟ ملک کا زرعی شعبہ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے واضح کشش رکھتا ہے‘ مگر ڈیری‘ کاشت کاری‘ بیج سازی اور زرعی ادویات سازی کے شعبے میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ چھوٹی اور درمیانے درجے کی ملکی صنعت کا بھی یہی حال ہے۔ ان شعبوں میں نئے یونٹس کی حوصلہ افزائی سے پہلے موجود ہ یونٹس کو بچانا بنیادی طور پر ضروری ہے۔ یہ روزگار کے ہزاروں بلکہ لاکھوں مواقع کو ریسکیو کرنے کے مترادف ہے‘ حکومت کو اس جانب بھی توجہ کرنی چاہیے۔ نوجوانوں کی علمی اور فنی تربیت پر بھی سرمایہ کاری کی جائے اور اینٹرپرینیورشپ کے ساتھ فری لانسنگ کے شعبوں کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ فری لانسنگ کا شعبہ حکومت کے ساتھ ملازمتوں کا بوجھ بانٹ سکتا ہے مگر اس رجحان کو ترقی دینے کیلئے حکومت کو اسے باقاعدہ صنعت کے طور پر لینا چاہیے تاکہ تعلیم یافتہ نوجوان اس راستے کو اپنے مستقبل کیلئے ایک امکان کے طور پر مدنظر رکھیں۔ یہ زرمبادلہ کمانے اور نوجوانوں کو عالمی انڈسٹری کیساتھ جوڑنے کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح ای کامرس کے انٹرنیشنل پلیٹ فارمز کی سیلرز لسٹ میں شامل ہونے سے پاکستان کے نوجوان‘ درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروباری حضرات کیلئے ترقی کے نئے راستے کھل رہے ہیں‘ مگر ان امکانات کا اصل فائدہ اسی وقت ہو گا جب حکومت ای کامرس کے شعبے کے فروغ کیلئے اقدامات کرے گی۔ حکومت کو ایسے بہت سے نئے شعبوں کو پروان چڑھانے کیلئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے جو ملکی معیشت اور انفرادی قوت خرید میں اضافہ کر سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement