وزیر اعظم‘ آرمی چیف کا دورۂ سعودی عرب
وزیر اعظم عمران خان جمعۃ المبارک کی شام تین روزہ دورہ پر سعودی عرب پہنچ گئے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی موجود ہیں۔ دونوں رہنمائوں کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ون آن ون اہم ملاقاتیں ہوئیں اور 5 معاہدوں اور 3 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے گئے۔ یہ دورے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ دورے کے پہلے روز وزیر اعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد نے پاک سعودی سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کونسل کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تعاون کے معاملات کو ہموار کرنا ہے تاکہ 2019ء میں سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر طے پانے والے سرمایہ کاری کے منصوبوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹائی جا سکیں۔ وفاقی کابینہ پہلے ہی اس سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کے قیام کی منظوری دے چکی ہے اور اب دونوں جانب کی اعلیٰ حکومتی شخصیات کے دستخطوں کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ اس کونسل کا قیام اور نتائج جلد ہی عملی طور پر ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ دونوں برادر ممالک میں توانائی‘ انفراسٹرکچر‘ ٹرانسپورٹیشن‘ پانی اور کمیونیکیشن کے شعبوں میں بھی ایم او یو پر دستخط ہوئے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین معاشی تعلقات کے حوالے سے یہ وقت بہت اہم ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030ء کی روشنی میں سعودی عرب اپنی معیشت اور وسائل کو وسعت دینے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے پاکستان دنیا کو تجارت اور ترقی کیلئے نئے مواقع تلاش کرنے میں مدد دینے کے سلسلے میں پُرعزم ہے؛ چنانچہ یہ ایک ایسا نقطہ ہے جہاں پاکستان اور سعودی عرب‘ دونوں کی ترجیحات مل جاتی ہیں اور سرمایہ کاری کیلئے نئے امکانات کے متلاشی سعودی عرب کو پاکستان کی صورت میں سرمایہ کاری کیلئے ایک اہم منزل نظر آتی ہے۔ سعودی حکومت ان امکانات کو خوب پہچانتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ احساس موجود ہے کہ برادر اسلامی ملک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے۔ اس سلسلے میں سعودی ولی عہد کا دورۂ پاکستان فیصلہ کن ثابت ہوا جس میں گوادر میں آئل سٹی اور بلوچستان میں قیمتی دھاتوں کی کان کنی سمیت سرمایہ کاری کے کئی بڑے منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا گیا‘ مگر پچھلے دو برسوں کی پیشرفت کی سست روی سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ کاری کے بڑے بڑے منصوبوں کو عملی شکل دینے کیلئے دونوں ملکوں میں رابطہ کاری کا ایک ایسا اعلیٰ سطحی نظام ضرور ہونا چاہیے جو دونوں ملکوں کی قیادت کے ماتحت ان منصوبوں اور دو طرفہ تعاون کے معاہدوں پر کام کی رفتار پر نظر رکھے اور درپیش رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاک سعودی عرب تعلقات کی گرمجوشی دونوں ممالک کی اہم ضرورت ہے۔ معاشی وسائل اور امکان کے متلاشی سعودی عرب کیلئے پاکستان ایک اچھا شراکت دار ثابت ہو سکتا ہے جبکہ سعودی سرمایہ کاری اور صنعتی منصوبے پاکستان میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ بدلتی ہوئی دنیا میں پاکستان کو اپنی جغرافیائی اہمیت کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ان امکانات سے بھرپور استفادہ کرنے کے بجائے قرض یا امداد مانگنے پر انحصار کیا گیا حالانکہ پاکستان اپنے معدنی اور قدرتی وسائل اور ہیومن ریسورس کو اگر صحیح طرح سے استعمال کرے تو قرضوں کی حاجت ہی نہ رہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کو سیاحتی شعبے میں ترقی اور تعاون کے معاہدے بھی کرنے چاہئیں۔ سیاحتی ترقی سعودی عرب کے ویژن 2030ء کا حصہ ہے مگر پاکستان سیاحت کے فروغ کا عزم رکھنے کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کر سکا۔