اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغان امن اور پاکستان

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز دورۂ کابل کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں ان تاثرات کا اظہار کیاکہ پُر امن افغانستان کا مطلب پُرامن خطہ بالخصوص پُر امن پاکستان ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے رائے بالکل واضح ہے کہ پُر امن افغانستان خطے میں پائیدار امن کی ضمانت ہے ‘ اسی نیت اور مقصد سے پاکستان افغان امن عمل میں بھی معاونت فراہم کررہا ہے اور افغان فریقین کو اس بات کا برابر احساس بھی دلاتا آرہا ہے کہ قیام امن کے حوالے سے پورے خطے بلکہ دنیا کے اس حصے کی نظریں ان پر ہیں۔افغان عمل کے شراکت دار اس کام میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرسکتے ہیں مگر حتمی طور پر افغان دھڑوں ہی کو اس بڑی تبدیلی کا بیڑا اٹھانا ہے۔افغانستان کی جنگ و جدل سے خود افغانستان کے بعد پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ‘ یہ اثرات جانی اور مالی ‘ دفاع اور امن و امان یہاں تک کہ سماجی تبدیلیوں کی صورت میں بھی سامنے آئے ہیں۔ کرۂ ارض پر دوسرا کوئی ملک نہیں جس نے جنگ زدہ ہمسایہ ملک کے کروڑوں پناہ گزینوں کو اس طرح پناہ دی ہو ۔

افغانوں کی دو نسلیں یہاں پروان چڑھی ہیں‘ جہاں جی چاہا مرضی کے کاروبار کئے ہیں ‘ منفی سرگرمیوں سے پاکستان کی معیشت کو نقصان بھی پہنچایا ہے مگر اس ملک کے عوام اور حکومت نے افغانوں کو جس طرح یہاں آباد ہونے کے مواقع فراہم کئے اور جس کشادگی سے انہیں قبول کیا وہ اپنی جگہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔بہرحال افغانستان کی شورش زدہ صورتحال میں پروان چڑھنے والی شر پسندی ‘ تخریب کاری اور انتہا پسندی سے پاکستان شدید طور پر متاثر ہے۔ بد قسمتی سے اس کام میں صرف غیر ریاستی عناصر ہی شامل نہیں بلکہ افغانستان کے سرکاری اداروں اور حکومت کے بعض افراد بھی ان واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں جو کہ بلا شبہ بڑی تشویش کی بات ہے۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لیے نیکی اور خلوصِ نیت ظاہر و باہر ہے مگر جب افغان حکومت اور سرکاری دستوں کی جانب سے معاندانہ جذبات اور ناپسندیدہ حرکات سرزد ہوتی ہیں تو پاکستان کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر یہ صورتحال باعث تشویش اور تکلیف ہوتی ہے۔ افغانستان کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ پائیدار مستقبل اور دنیا کی ابھرتی ہوئی اقوام میں شامل ہونے کے لیے انہیں جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس میں باہمی افہام و تفہیم اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ قابل اعتماد تعلقات سب سے اہم ہیں۔ افغانستان کے پائیدار امن اور ترقی کے لیے یہ دو بنیادی سنگ میل ہیں۔

افغانوں سے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ ان کا ملک نئے عالمی انتہا پسند گروہوں کی جولاں گاہ بن چکا ہے۔ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بڑے پیمانے کی پُر تشدد کارروائیاں جاری ہیں۔ ہفتے کی شام کابل میں لڑکیوں کے سکول پر ہولناک حملے میں 85کے قریب اموات ہو چکی ہیں ۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس وقوعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی جبکہ طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ گزشتہ روز جنوبی افغان صوبے زابل میں ایک بس پر حملے میں دس سے زائد افراد مارے گئے۔ ان حالات میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل خود افغانوں کیلئے اور ہمسایہ ملکوں کیلئے بھی عدم تحفظ اور افغانستان کے داخلی حالات کے بارے بے یقینی میں اضافہ کر سکتا ہے۔افغان امن عمل نے افغانوں کیلئے اپنے ملک کے مستقبل کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے احسن موقع پیدا کیا ہے مگر اس موقع پر مزید خوں ریزی سے خود افغان بھی اور خطے کے ممالک بھی عدم تحفظ محسوس کریں گے۔ افغانوں کو پائیدار قیام امن اور استحکام کے لیے داخلی امن اور ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ مضبوط اور قابلِ اعتماد تعلقات کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement