عیدِ سعید: سب کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں!
پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک میں آج عیدالفطر پورے مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ اہلِِ اسلام سجدہ ریز ہو کر پروردگارِ عالم کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس اعلیٰ ترین ذات نے ہمیں رمضان المبارک میں روزے رکھنے‘ عبادت کرنے اور تزکیہ نفس کی توفیق عطا فرمائی۔ اس بات پر شکر کیا جا رہا ہے کہ سب کائناتوں کے مالک نے ہمیں سیدھا رستہ دکھایا اور اس پر چلنے کی توفیق دی۔ لیکن اس بار عید اپنے جلو میں دو بڑی پریشانیاں بھی لے کر آئی ہے۔ پوری دنیا کے طرح مسلم ممالک بھی کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہر روز درجنوں عزیز ہم سے بچھڑ جاتے ہیں اور ہزاروں نئے افراد کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کی خبریں ملتی ہیں۔ سائنس دانوں نے کچھ سٹینڈرڈ آپرینگ پروسیجرز (ایس او پیز) وضع کیے اور یہ بتایا کہ ان پر عمل کرنے سے کورونا وبا سے بچا جا سکتا ہے‘ یا پھر ویکسین ایجاد کی گئی اور بتایا گیا کہ اس کی دو خوراکیں انسان کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے میں مددگار ہوں گی۔ لیکن ہمارے ہاں نہ تو ایس او پیز پر پوری طرح عمل درآمد ہو رہا ہے اور نہ سارے لوگ ویکسین لگوانے ہی کو تیار نظر آتے ہیں۔ اس کا نتیجہ پورے ملک میں اس وبا کے پھیلائو میں اضافے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں عید کے دنوں میں بھی ایس او پیز کا خیال رکھنا ہے اور پھر یہ عہد کرنا ہے کہ پہلی فرصت میں کورونا ویکسین لگوائیں گے تاکہ نہ خود اس جان لیوا بیماری کا شکار ہوں اور نہ ہی دوسروں میں یہ وبا پھیلانے کا باعث بنیں۔ کورونا کی ہلاکت خیزیوں کے سبب این سی او سی نے ہجوم کم سے کم رکھنے کیلئے عید کی نماز کی ایک سے زائد جماعتیں کروانے کی تجویز دی ہے، علاوہ ازیں جائے نماز گھروں سے لانے، گھروں سے ہی وُضو کر کے عیدگاہ جانے، محدود خطبے، چھ فٹ کا سماجی فاصلہ رکھنے، گلے ملنے اور معانقہ کرنے سے اجتناب کرنے کی بھی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان ہدایات پر عمل کیا جانا چاہیے۔ عید کے بابرکت دن ہمیں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں‘ ہم سب مسلمانوں کو بلکہ پوری انسانیت کو اس وبا کی تباہ کاریوں سے نجات عطا کر دے اور وہ دن لوٹا دے جب ہم سب مل کر بیٹھتے‘ خوش گپیاں کرتے اور محفلیں برپا کرتے تھے۔ دوسری پریشانی یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یروشلم میں فتنہ انگیزی کی گئی ہے، قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ پر دھاوا بولا گیا، پُرامن نمازیوں پر تشدد کیا گیا۔ اس کے بعد غزہ پر وحشیانہ بمباری سے حالات جو رخ اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس سے مستقبل کے منظرنامے کے تمام روشن امکانات دھندلا گئے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس معاملے کو فوری طور پر یہیں نہ روکا گیا اور مشرقِ وسطیٰ میں دہکتے الائو کو بجھانے کی سبیل نہ کی گئی تو یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور کوئی بھی خطہ یا ملک اس سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ اگرچہ پوری دنیا میں اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی جا رہی ہے مگر یہ معاملہ زبانی مذمت کی حدود سے کوسوں آگے نکل چکا ہے۔ ضروری ہے کہ صہیونی ریاست کو سخت پیغام دیا جائے اور مظلوم فلسطینیوں سے بھرپور اظہارِ یکجہتی کیا جائے۔ عید پر وفاقی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کا فیصلہ خوش آئند ہے؛ تاہم اس مسئلے کو بھرپور انداز میں سفارتی سطح پر بھی اٹھایا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کے مطابق‘ یوم فلسطین منانے کا مقصد مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا، مشرق وسطیٰ کے اس سنگین مسئلے کو اجاگر کرنا اور اس کے پُرامن حل کی راہ ہموار کرنا ہے۔ لازم ہے کہ او آئی سی اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی پلیٹ فارمز اس مقصد کیلئے بروئے کار لائے جائیں اور اقوامِ عالم کو مظلوم فلسطینیوں سے کیا گیا ان کا وعدہ یاد دلایا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی فون پر بات چیت میں غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مل کر مسئلہ فلسطین پر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
عالمی سطح سے ہٹ کر اگر داخلی سطح پر بات کی جائے تو بھی دل خوش کن صورتحال نظر نہیں آتی۔ قومی معیشت عدم استحکام کے خطرے سے دوچار ہے جبکہ کچھ کورونا اور کچھ دوسرے عوامل کی وجہ سے نہ تجارت ٹھیک ہے‘ نہ صنعتی و زرعی پیداوار کو بڑھانا ہی ممکن ہو رہا ہے؛ چنانچہ عید کے روز ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ معاشی اور معاشرتی حوالوں سے پاکستان کے مسائل حل کر دے اور ہمیں اقتصادی استحکام عطا فرمائے۔ عید کے دن کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہم صرف خود ہی خوشیاں نہ منائیں اور ان کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جو اچھا لباس یا اچھا کھانا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اصل عید ہی یہ ہے کہ دوسروں کے کام آیا جائے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو برسوں سے کورونا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے روزگار ختم ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی نوکریوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ اس قابل نہیں رہے کہ عید کے موقع پر اپنے بچوں کی خوشیاں پوری کر سکیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے‘ آپ کو بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے۔ خاموشی سے ان کی مدد کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا دل خوشیوں سے بھر دے گا۔ آپ اپنے گھروں میں اچھے پکوان تیار کرائیں تو کچھ ان کو بھی دیجئے تاکہ وہ بھی عید کی خوشیاں منا سکیں۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں کہ عید کے اس پُر مسرت دن رب العالمین ہماری سب نیک خواہشیں اور تمنائیں پوری کر دے۔ آمین!