اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس اور زمینی حقائق

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے مطابق حالیہ وفاقی بجٹ کا مطمح نظر نمو کو بڑھانا اور غریب لوگوں کیلئے معاشی آسانی فراہم کرنا ہے۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر خزانہ نے برآمدی شعبے کی مراعات اور سہولیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے اگلے آٹھ سے نو برس میں برآمدات کو جی ڈی پی کے 20 فیصد تک بڑھانا ضروری ہے۔ اس وقت ہماری برآمدات جی ڈی پی کے آٹھ فیصد کے برابر ہیں۔ برآمدات معاشی ترقی کی ضمانت ہیں‘ خاص طور پر ہمارے جیسے کثیر آبادی والے ممالک کے لیے معاشی بقا کا یہی احسن راستہ ہے؛ تاہم اہم سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اب تک ہماری برآمدات بنیادی طور پر ٹیکسٹائل پر مشتمل رہی ہیں یا ان میں کچھ حصہ زرعی اجناس کا ہے‘ مگر زرعی پیداوار میں بجائے اضافے کے کمی واقع ہو رہی ہے۔ الٹا ہمیں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بہت سی اجناس درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ ہماری برآمدات میں صنعتی مصنوعات کا حصہ محدود ہے۔ سالہا سال سے ہمارا برآمدی منظر نامہ کچھ اسی قسم کا رہا ہے‘ مگر جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ اگلی ایک دہائی کے دوران تین گنا کے قریب بڑھانے کیلئے برآمدی صنعت کی اس بیس کو پھیلانا ہو گا۔ ہم جتنا بھی چاول اور ٹیکسٹائل مصنوعات دوسرے ممالک کو فروخت کر لیں‘ برآمدات میں تین گنا اضافہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے نئے افق تلاش کرنا ہوں گے‘ اور ایسا اسی صورت ہو گا جب نئی صنعتوں کو ابھرنے کے لیے مراعات دی جائیں گی اور اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کو وسط مدتی اور طویل مدتی‘ دونوں طرح کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ جس میں یہ طے کیا جائے کہ ایسے کون سے شعبے ہیں جو فوری طور پر برآمدی میدان میں اتر سکتے ہیں۔ ان دنوں آئی ٹی کا شعبہ حکومتی حلقوں میں زیر بحث ہے اور وزیر خزانہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ آئی ٹی کے شعبے میں ہر سال 100 فیصد نمو ہو سکتی ہے۔ مالی سال 2021ء میں اس شعبے کی گروتھ 40 فیصد رہی۔ رواں مالی سال میں جولائی سے فروری تک اس شعبے کی ایکسپورٹس ایک ارب 29 کروڑ ڈالر تھیں جبکہ گزشتہ مالی برس کے اس دورانیے میں قریب 91 کروڑ ڈالر۔ آئی ٹی سیکٹر کی برآمدی نمو ظاہر کرتی ہے کہ اس شعبے پر توجہ دی جائے تو ترقی کے امکانات روشن ہیں؛ چنانچہ حکومت کو محض کسی ایک یا دو شعبوں پر مراعات کی بارش کرنے کے بجائے ابھرتے ہوئے برآمدی شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ زرعی شعبہ بھی درآمدی حصہ بڑھا سکتا ہے‘ اس میں اس کی سکت موجود ہیں مگر یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان وسائل سے استفادہ کر پاتی ہے یا نہیں۔ یہ کام جامع حکمت عملی اور منصوبہ بندی مانگتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک وسیع زرخیز رقبہ ہونے کے باوجود ہم کپاس کی پیداوار میں افسوسناک حد تک پیچھے جا چکے ہیں اور بد قسمتی یہ کہ آگے بڑھنے کی کوئی منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آتی۔ صرف کپاس کا مسئلہ نہیں‘ ہمیں ابھی پچھلے سال تک گندم اور چینی بھی درآمد کرنا پڑی تھی۔ بعض ہنگامی صورتوں یا قدرتی آفات کے نتیجے میں اگر فصلیں متاثر ہوں تو وہ الگ بات ہے‘ مگر ہمارے ہاں تو خالص منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے زراعت کی پسماندگی کا مسئلہ ہے‘ جس کے نتیجے میں ہمیں ٹماٹر‘ مرچیں اور متعدد سبزیاں بھی باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ خوراک کی باسکٹ بننے کی پوری اہلیت رکھنے والی قوم خوراک کے بحران سے دوچار ہے اور درآمدی اجناس پر گزارہ کرتی ہے۔ اگر زرعی شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب توجہ دی جائے تو یہاں بھی معاملہ الٹ ہو سکتا ہے یعنی ہم درآمدی کی بجائے برآمدی معیشت بن سکتے ہیں‘ مگر اس کام کے لیے وسیع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ کام کاشت کاروں کو ایک‘ ڈیڑھ لاکھ روپیہ قرض دینے سے نہیں ہو گا بلکہ ان کو تربیت دینے اور زراعت کو صنعتی بنیادوں پر استوار کرنے سے ہو گا۔ ہمارا ملک نہ صرف کثیر آبادی والا ملک ہے بلکہ آبادی کی غالب اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں تعلیم‘ تربیت اور روزگار چاہئیں۔ اس طبقے کی ضروریات کو نظر انداز کرنا ملک و قوم کے لیے خوفناک ہو سکتا ہے؛ چنانچہ ہمارے رہنماؤں کو چاہیے کہ اس معاملے میں چوکنا رہیں اور نوجوانوں کی تربیت‘ تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ان تھک محنت کریں۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے جڑے ہوئے اکنامک زونز میں چینی صنعتوں کو لایا جائے تاکہ صنعت کاری سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں بلکہ نوجوان نسل کے لیے ترقی کا ایک راستہ کھلے۔ حکومت کیلئے یہ چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ یہ مسائل اگرچہ پہلے سے ہیں؛ تاہم پچھلے کم از کم دو برسوں کے دوران صنعتی‘ معاشی اور انفرادی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اندوختہ بڑھ گیا ہے اس لیے مالی سال 2022ء کو اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت کو اس سال کا کوئی دن ضائع کیے بغیر اپنی کارکردگی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے نظر ان اہداف پر رکھنی چاہیے جو بجٹ سے پہلے بجٹ میں اور بعد از بجٹ وفاقی وزرا قوم کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ یہ ساری باتیں‘ یہ سارے معاملات ایک مثبت صورتحال کی عکاس ہیں‘ لیکن معاملہ یہ ہے کہ بہت سے معاشی معاملات ابھی حکومت اور آئی ایف کے مابین زیرِ بحث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر زیرِ غور معاملات پر کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جاتا تو اس صورت میں بجٹ کے اعدادوشمار اور طے کیے گئے اہداف کا کیا بنے گا؟ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement