اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پٹرولیم لیوی اور مہنگائی کے محرکات

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ شوکت ترین کا یہ انکشاف چونکا دینے والا تھا کہ حکومت کو پٹرولیم لیوی کی مد میں 610 ارب روپے اکٹھے کرنے کیلئے لیوی میں اضافہ کرتے ہوئے اسے20 روپے فی لٹر تک لے جانا ہو گا۔ ڈیزل اور پٹرول کی موجودہ قیمتوں میں فی لٹر پٹرولیم لیوی کے چار سے پانچ روپے شامل ہیں اور یہ محصول اگر 20 روپے فی لٹر تک بڑھا دیا گیا تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہو گا اس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت مہنگائی میں کمی لانے اور عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کیے جا رہی ہے‘ مگر چپکے سے بجٹ میں کچھ ایسے عوامل بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو مہنگائی میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بنیں گے۔ توانائی اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے دو بنیادی فیکٹرز ہیں اور ایک دوسرے سے منسلک اور وابستہ۔ جو حکومت یہ قیمتیں کنٹرول کر لے مہنگائی کے مسئلے سے نمٹنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کیلئے بھی یہ ایک بڑا چیلنج ہے مگر جو باتیں سننے میں آ رہی ہیں‘ ان سے اندیشہ ابھر رہا ہے کہ ریلیف زبانی کلامی ہی دی جائے گی جبکہ ریونیو بڑھانے کے وہی روایتی حربے استعمال کیے جاتے رہیں گے‘ جو اس سے پہلے استعمال کیے جاتے رہے ہیں اور جو عام آدمی کیلئے ناموافق مالی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ جناب وزیر خزانہ کی یہ منطق بڑی دلچسپ ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں میں نرمی سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی سپلائی میں اضافہ ہو گا جس سے قیمتوں میں کمی آئے گی؛ چنانچہ پاکستان میں لیوی بڑھانے کے باوجود تیل کی قیمتوں پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔

حکومت 610 ارب روپے کے بھاری ریونیو کی بنیاد ایک عالمی صورتحال پر کیسے رکھ سکتی جس کے بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت کو بین الاقوامی سطح پر انرجی کی قیمتوں کا یہ منظرنامہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ عالمگیر کورونا وبا میں واضح کمی کے بعد دنیا مصروفیات کے معمول کی جانب پلٹ رہی ہے‘ فضائی ٹریفک اور صنعتیں بحال ہو رہی ہیں‘ ایسے میں تیل کی کھپت میں بڑے اضافے کا امکان ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ایک تازہ اندازے کے مطابق رواں سال کے دوسرے نصف میں تیل کی طلب میں پہلے نصف کے مقابلے میں پانچ فیصد اضافہ ہو گا۔ اوپیک آنے والے وقت میں آئل مارکیٹ ٹائٹ ہونے کا پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ اگر تیل برآمد کرنے والے ممالک کی جانب سے سپلائی میں اضافہ نہ کیا گیا تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہے جبکہ ابھی سے برینٹ کروڈ کے ایڈوانس سودے 72 ڈالر فی بیرل سے زائد پر ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں بالفرض امریکہ اور ایران کا معاملہ طے پا جاتا ہے اور ایران پر سے امریکی پابندیاں اٹھ جاتی ہیں اور عالمی منڈی میں ایرانی تیل فروخت ہونے لگتا ہے تو بھی قیمتوں میں اضافے کو خارج از امکان قرار دینا حیران کن ہو گا؛ چنانچہ ہماری حکومت اگر پٹرولیم لیوی کو 20 روپے تک بڑھانا چاہتی ہے تو یہ تیل کی قیمتوں میں ردوبدل کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے پٹرول کی قیمت میں 20 روپے لٹر اضافے کے خدشات کا اظہار ابھی سے کیا جانے لگا ہے جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے فنانس اینڈ ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان یاد دلا رہے ہیں کہ ہم بجلی کی قیمتوں میں اب تک جو اضافہ کر چکے ہیں آئی ایم ایف اس سے مطمئن نہیں۔ بجلی کی قیمتوں پر آئی ایم ایف کی عدم رضامندی سے کیا سمجھا جائے؟ شاید یہ مستقبل قریب میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی اطلاع ہے۔ ممکن ہے مالی سال 2022ء کے شروعاتی ہفتوں میں یہ معمہ بھی کھل کر سامنے آ جائے۔ بالفرض آئی ایم ایف بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے تب بھی پٹرولیم لیوی میں اضافے اور کروڈ آئل اور ایل این جی پر نئے ٹیکسز سے بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافے سے صارفین کے لیے بجلی کا مہنگا ہونا یقینی ہے۔ پٹرولیم لیوی اب وفاقی حکومت کے لیے ریونیو اکٹھا کرنے کا ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران پٹرولیم مصنوعات پر عائد اس اضافی ٹیکس کے ذریعے عوام کی جیبوں سے ساڑھے نو سو ارب روپے نکلوائے گئے۔

مالی سال 2018ء میں اس مد میں 179 ارب روپے اکٹھے کیے گئے‘ مالی سال 2019 میں 206 ارب روپے اور مالی سال 2020ء میں 294 ارب روپے جبکہ رواں مالی سال کے دوران پٹرولیم لیوی کی شرح میں بے بہا اضافہ کیا گیا جس سے اس مالی سال کے پہلے نصف (جولائی تا دسمبر) میں ہی 275 ارب روپے سے زائد رقم اکٹھی کر لی گئی۔ رواں مالی سال میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ پٹرولیم لیوی کی مد میں ریونیو کا ہدف 610 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ پانچ برسوں میں پٹرولیم لیوی کے محصولات کو 179 ارب سے بڑھا کر 610 ارب روپے تک لے جانا پٹرولیم صارفین کو معاشی طور پر کچلنے کے مترادف ہے۔ یہ واضح ہے کہ ریونیو میں اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں اضافے کی وجہ سے نہیں بلکہ لیوی کی شرح میں اضافے کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ان کے نزدیک پٹرولیم لیوی اور اس قسم کے دیگر محصولات تیل کی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافے کے اصل اسباب تھے‘ مگر حیران کن طور پر ان کی دور حکومت میں لیوی کی شرح اور اس مد میں ریونیو ٹارگٹ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کو ان معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement