اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ترقی پذیر دنیا کے حقوق کی جدوجہد

اقوام متحدہ کے ہائی لیول پولیٹیکل فورم سے وزیر اعظم عمران خان کا خطاب کورونا وبا کے اثرات سے بحالی‘ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے اور مستحکم ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) کے معاملات میں ترقی پذیر دنیا کی بھرپور وکالت پر مبنی تھا۔ اس ورچوئل خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ کووڈ19 کی وبا نے اقوام کے ایک دوسرے پر انحصار کو واضح کیا ہے؛ چنانچہ اس وبا کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ویکسین کی عام دستیابی اور غریب ممالک کی رسائی کا معاملہ خصوصی طور پر قابل غور ہے، جس کا ذکر وزیر اعظم نے بھی تفصیل کے ساتھ کیا۔

کورونا کی وبائے عام مشترکہ عالمی مسئلہ بن کر سامنے آئی اور جب تک پوری دنیا اس مسئلے سے رہائی حاصل نہیں کر لیتی اس کے خطرات باقی رہیں گے؛ چنانچہ اس وبا سے نمٹنے کیلئے دنیا کو امیر‘ غریب یا ترقی یافتہ اور پسماندہ کی تقسیم سے آزاد ہو کر سوچنا ہو گا‘ اور اس کیلئے ضروری ہے کہ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کو کسی کمپنی‘ ملک یا خطے کا اجارہ نہ بننے دیا جائے بلکہ اسے تمام اقوام کا مشترکہ اثاثہ تسلیم کیا جائے اور سبھی کو اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ملنا چاہیے‘ بصورتِ دیگر سہولیات اور وسائل کے اعتبار سے صفِ اول کی دنیا وائرس کے خلاف دفاع مضبوط کرتی رہے گی‘ جبکہ محروم ممالک‘ جو اس وبا کے خطرے سے بدستور دوچار ہوں گے‘ میں کورونا وائرس اپنی نئی نئی صورتوں کے ساتھ جنم لیتا رہے گا اور یہ ویری اینٹس دنیا کو وبا کی نئی لہروں کے اندیشوں میں مسلسل مبتلا رکھے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ عالمی سطح پر کورونا ویکسین تک سستی اور آسان رسائی وائرس کو شکست دینے اور عالمی تجارتی اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کی بحالی اور معاشی نمو کیلئے ناگزیر ہے‘ مگر ابھی تک اس پیشرفت کے آثار نظر نہیں آتے اور کورونا ویکسین پر عالمی سیاست اور دھڑے بندی بتدریج کھل کر سامنے آرہی ہے۔ کورونا کے خلاف عالمی جدوجہد کیلئے یہ منفی مقابلے بازی کسی خیر کی علامت نہیں۔ کورونا ویکسین پر مشرق اور مغرب کی تقسیم تشویشناک صورت اختیار کرچکی ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ مغربی ممالک چینی ویکسین کی افادیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں‘ جبکہ اپنی ویکسین ٹیکنالوجی پر پیٹنٹ اور صنعتی اجارہ داری پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنے پر بھی آمادہ نظر نہیں آتے۔

اس طرح ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کیلئے ویکسین تک رسائی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے‘ اور اسی محرومی کو اس وقت کورونا کی نئی لہروں کا بنیادی سبب سمجھا جا رہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ویکسین کی پروڈکشن پر یہ سیاست ختم ہونی چاہیے اور عالمی ادارہ صحت کی فہرست میں درج سبھی ویکسینز کو یکساں درجہ اور قبولیت حاصل ہونی چاہیے۔ مغربی ممالک اگر اپنی ویکسینز کو زیادہ مؤثر سمجھتے ہیں تو غریب ممالک کی ان تک آسان رسائی یقینی بنانے کیلئے انہیں قیمتیں کم کرنی چاہئیں اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ویکسینز کے انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس ختم کیے جائیں‘ چاہے کچھ وقت کیلئے ہی سہی‘ اور ترقی پذیر ممالک میں ویکسینز کی لائسنس پروڈکشن کی اجازت دی جائے‘ جبکہ غریب اور پسماندہ ممالک کو ان ویکسینز کی خریداری کیلئے گرانٹس دی جائیں۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں کورونا کیخلاف بھرپور دفاع یقینی بنانے کا امکان محدود رہے گا‘ یوں کہیں نہ کہیں وائرس پھیلتا رہے گا اور نئی اقسام دنیا کو کورونا کے خطرات سے آزاد نہیں ہونے دیں گی‘ لیکن ویکسین کی تیاری اور فراہمی وبا کا صرف طبی محاذ پر مقابلہ کر سکتے ہیں جبکہ اس کے معاشی اثرات سے نکلنے کیلئے معیشت کو متحرک کرنے کی جو ضرورت ہے اس کیلئے اقتصادی محاذ پر توجہ ناگزیر ہے۔

دولت مند ممالک نے وبا کے اثرات سے نکلنے کیلئے اپنی معیشتوں میں 17000 ارب ڈالرز داخل کر لیے ہیں‘ مگر ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشت کو استوار کرنے کیلئے چار ہزار ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے ابھی تک وہ اس کے بمشکل پانچ فیصد یا اس سے بھی کم کا بندوبست کر پائے ہیں۔ اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو اپنی معیشت کو کورونا سے پہلے کی سطح پر لانے کیلئے ابھی کتنی وسیع خلیج کو عبور کرنا ہے۔ اس محرومی یا مجبوری کا براہ راست اثر یہ ہوگا کہ ترقی پذیر ممالک اقوام متحدہ کے مستحکم ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے حصول میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس ترقیاتی خلا کو پُر کرنے کیلئے وزیر اعظم عمران خان عالمی ترقیاتی ادارے اور عالمی بینک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کی مالی معاونت بڑھانے اور نسبتاً آسان شرائط پر قرض فراہم کرنے پرزور دیتے آئے ہیں۔

ان کا یہ نقطہ نظر زمینی حقیقتوں کے عین مطابق ہے اور عالمی سطح پر ترقیاتی بحران سے نمٹنے اور دنیا میں معاشی‘ معاشرتی‘ طبی‘ تعلیمی‘ ترقیاتی اور بنیادی انسانی سہولیات کے شعبوں میں ترقیٔ معکوس کو روکنے کیلئے بنیادی ضرورت ہے۔ ہائی لیول پولیٹیکل فورم سے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر یہ دہرایاکہ ترقی پذیر ممالک میں مستحکم ترقی کی خاطر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے 150ارب ڈالر دیے جائیں اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ماحولیاتی فنانسنگ کیلئے سالانہ 100ارب ڈالر دینے کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ بھی پورا کیا جائے۔ کورونا وبا کے اثرات سے نکلنے کے اعتبار سے موجودہ دور پوری دنیا کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ مگر ترقی پذیر ممالک کیلئے یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے‘ اس لیے کہ یہ ان کیلئے نقطہ آغاز ہے؛ چنانچہ ترقی پذیر دنیا کی جانب سے مستقبل میں اپنے حقوق کو منوانے کی جدوجہد کا آغاز یہیں سے ہونا چاہیے‘ بصورت دیگر محرومیاں آگے بھی پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement