اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاکستان افغان ہم آہنگی کے لیے سرگرم

شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف کے ساتھ ملاقات افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے دو طرفہ تعلقات، مختلف شعبہ جات میں باہمی تعاون کے فروغ سمیت اہم علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا‘ بالخصوص افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانوں کیلئے قابلِ قبول امن عمل کی حمایت جاری رکھنے کے حوالے سے پُرعزم ہے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ نے افغان وزیر خارجہ محمد حنیف آتمر کے ساتھ ملاقات میں افغانستان میں شدت پسندی میں اضافے کے رجحان اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے افغان انتظامیہ پر واضح کیا تھا کہ منفی بیانات سے افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا‘ الزام تراشی کسی فریق یا خطے کے مفاد میں نہیں۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ سے ازبکستان کے وزیر خارجہ عبدالعزیز کامیلوف کی ملاقات میں بھی افغان صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاوہ ازیں وزیرِ اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر آج ازبکستان روانہ ہورہے ہیں‘ جہاں دوسرے معاملات کے علاوہ افغانستان کا مسئلہ بھی زیر غور آئے گا۔ اس طرح یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومتِ پاکستان نے بالآخر افغانستان کی تغیر پذیر صورتحال کے تناظر میں علاقائی سطح پر ہم آہنگی بڑھانے کے سلسلے میں وہ مہم شروع کر دی ہے‘ جس کی اشد ضرورت پچھلے کئی ہفتوں سے محسوس کی جا رہی تھی۔

یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ علاقے کے دوسرے ممالک‘ خصوصی طور پر وہ ممالک جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں‘ بھی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور افغان عمل کو تیزی سے آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں؛ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل وہی ہے جس میں تمام افغان فریقوں کی رضا مندی شامل ہو‘ اور جو کسی بھی تصادم اور خونریزی سے پاک ہو۔ ان حوصلہ افزا پیش رفتوں کے دوران نئی دہلی میں افغانستان کے سفیر فرید ماموند زئی نے یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کر دیا کہ ضرورت پڑنے پر بھارت سے عسکری مدد طلب کر سکتے ہیں۔ ان کے اس بیان نے پورے خطے کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ افغان سفیر یہ فراموش کر رہے ہیں کہ اگر اس مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے نکل سکتا ہوتا تو امریکہ‘ جو دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت ہے‘ بیس سالہ جنگ کے بعد مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کی جانب نہ بڑھتا۔ دوم‘ کسی بھی غیرملکی طاقت کی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سلگتی آگ کو بھڑکانے کا سبب بنے گی۔

افغان حکومت کو یہ مسئلہ اپنے طور پر طالبان اور مقامی کمانڈروں کے ساتھ مل کر افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے۔ کسی تیسری طاقت کو ملک میں در آنے کی دعوت دینا دراصل اپنی نااہلی اور شکست کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ افغانستان ماضی میں بھی عالمی اور علاقائی طاقتوں کا اکھاڑہ بنا رہا اور اب کسی ملک کو مدد کیلئے سرحدوں کے اندر آنے کی دعوت دینا ایک جنگ ختم ہونے کے بعد ملک کو دوسرے میدانِ جنگ میں تبدیل کر دینے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بیشتر عناصر جنگ کی آگ کو بجھانے کے بجائے مزید بھڑکا کر اپنا مفاد کشید کرتے ہیں اور اس جنگ کا نوالہ کوئی اور نہیں‘ محض افغان عوام بنیں گے۔ نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا درحقیقت افغان قوم اور عوام کیلئے ایک نیا موقع ہے کہ وہ اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں ‘ اپنے مسائل حل کریں اور اپنے ملک کو خود سنواریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement