اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

داسو بس حادثہ اور دہشت گردی کے نئے خدشات

وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپر کوہستان کے علاقے میں چینی انجینئرز کی بس کو پیش آنے والے حادثے میں دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ وزیر اطلاعات کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں دھماکہ خیز مواد کی تصدیق ہوئی ہے۔ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی سائٹ کے قریب شاہراہ قراقرم پر بدھ کے روز اس واقعے میں نو چینی انجینئر اور چار پاکستانی اہلکار جاں بحق ہو گئے تھے۔ ابتدائی طور پر اس واقعے کو بس میں فنی خرابی کے نتیجے میں ہونے والا سڑک حادثہ قرار دیا گیا؛ تاہم بعض صحافتی ادارے مقامی ذرائع کے حوالے سے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دے رہے تھے۔ بدھ کے روز ہی یہ خبریں آ رہی تھیں کہ چینی انجینئرز کو لے جانے والی بس میں زوردار دھماکہ ہوا۔ حیرت ہے کہ حکومت کو اس افسوسناک وقوعے کی ابتدائی تفتیش کے نتائج حاصل کرنے میں 24 گھنٹے سے بھی زیادہ وقت لگا۔ بہرحال یہ واقعہ اس حوالے سے بڑا واضح ہے کہ ملک دشمن عناصر پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے لوگوںکے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ یہ خطرات کہاں سے ابھرتے ہیں؟ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کیونکہ پاک چین دوستی اور سی پیک کے منصوبے کی مخالفت میں بھارت حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر اب تک بہت کچھ کہہ چکا ہے؛ چنانچہ تخریب کاری کے محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ بہرحال ملکی سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ مکمل تفتیش کی جائے اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس کا سراغ  لگایا جائے اور اسے ختم کیا جائے۔

ملک کے ایک بڑے منصوبے پر کام کرنے والے غیر ملکی انجینئرز کو ممکنہ طور پر دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں نے پاک چین دوستی‘ باہمی اعتماد اور پاکستان کی ترقی کے عمل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے‘ لیکن ہر طرح کے حالات کی آزمودہ دوستی اور پاکستان اور چین کا باہمی اعتماد تخریب کاری کی ایسی مذموم حرکتوں سے متاثر ہونے والا نہیں‘ نہ ہی جاری ترقیاتی منصوبوں کی رفتار پر اس سے کوئی فرق پڑنے والا ہے۔ پاک چین دوستی علاقائی اور عالمی تخریبی عناصر کے پیدا کردہ خطرات پر غالب آنے کے عزم صمیم سے سرشار ہے۔ ان گھناؤنی حرکتوں سے اس بلند تر عزم کو سبوتاژ نہیں کیا جا سکے گا اور پورے وثوق سے کہا جا سکتا کہ 1,140,000 ایکڑ فٹ کا آبی ذخیرہ اور 4320 میگا واٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا حامل داسو ہائیڈرو پروجیکٹ مقررہ مدت میں 2023ء تک مکمل ہو جائے گا۔ یہ  تخریب کاری پاکستان اور چین کی دوستی اور علاقائی ترقی اور وسیع تر خوش حالی کے بلند عزائم کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ اس لحاظ سے یہ صورت حال دونوں ملکوں کیلئے ایک چیلنج بھی ہے؛ تاہم قوی امید ہے کہ پاکستان اور چین اس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب رہیں گے اور حسبِ سابق ہر طرح کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنے ترقیاتی مقاصد پر نظر رکھیں گے۔ یہ بلند حوصلے اور عزائم اپنی جگہ لائقِ قدر و تحسین ہیں مگر یہ ہمارے اداروں کو ان کی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں کرتے۔ سکیورٹی کے وہ ادارے جو ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے مہمان عملے کی حفاظت پر مامور ہیں یا ان معاملات کی نگرانی اور منصوبہ بندی کے ذمہ دار ہیں‘ انہیں خطرات کا صحیح طرح سے ادراک کرنا ہو گا۔ یہ نہیں مانا جا سکتا کہ اعلیٰ سکیورٹی حلقوں کودر پیش خطرات کا اندازہ نہ ہو۔ جہاںمعلومات اکٹھی کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا تہہ در تہہ اور پیشہ ورانہ مہارت کا حامل نظام موجود ہو وہاں عملی سطح پر ایسے سقم کا پایا جانا یقینا کسی غفلت اور کوتاہی کی وجہ ہی سے ممکن ہے۔ مگر یہ کوتاہی ملک و قوم‘ دوست ملک اور اسے کے لائق شہریوں کیلئے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اگلے روز کے اس وقوعے سے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا؛ چنانچہ اس سانحے کے بعد چینی نژاد عملے کی حفاظت کے انتظامات کیلئے مزید کڑے انتظامات کیے جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ جبکہ پہلے سے موجود انتظامات کا نہایت ذمہ داری کے ساتھ از سر نو جائزہ لے کر یہ دیکھنا ہو گا کہ حفاظت کے اس نظام میں اگر کوئی کمزوری ہے تو کہاں ہے۔ داسو پروجیکٹ کا وقوعہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی مہارت کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ دشمن نے جو سازش تیار کی وہ اسے عملی طور پر انجام دینے میں کامیاب رہا۔

مستقبل میں ایسی صورتحال کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے ہر سطح پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ یہ واضح ہے کہ افغانستان کی صورتحال نے پورے خطے کیلئے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے اور ماضی کے تجربات کو دیکھیں تو افغان صورتحال کے اثرات وطن عزیز پر سب سے زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حالات ماضی کے مقابلے میں بڑے مختلف ہیں۔ سرحدی مینجمنٹ کا نظام بھی پہلے سے بہت بہتر بنا لیا گیا ہے‘ مگر لاقانونیت کے ماحول میںدشوار گزار زمینوں پر واقع طویل سرحد کا یقینی دفاع مشکل ترین کام ہے؛ چنانچہ سرحد پار کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنانا ہو گا۔ داسو میں چینی انجینئرز کی بس کے سانحے کے اگلے روز بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی میں پاک فوج کو دہشت گردوں کی جانب سے بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے میں پاک فوج کا ایک کپتان اور ایک سپاہی شہید ہو گئے۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ بھی سکیورٹی کے نئے خدشات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ہمسایہ ملک میں انتشار کی صورتحال پاکستان کیلئے دفاعی چیلنجز کا سبب بن رہی ہے۔ دفاعِ وطن کا تقاضا ہے کہ امن و سلامتی یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement