وزیر اعظم کا دورۂ ازبکستان اور خطے کی صورتحال
وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ازبکستان‘ اور وسطی و جنوبی ایشیا کے علاقائی روابط پر منعقدہ بین الا قوامی کانفرنس سے خطاب‘ دونوں ہی موجودہ علاقائی صورتحال میں بڑی پیشرفت ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے وسطی ایشیا کا خطہ پاکستان کی قریبی ہمسائیگی میں آتا ہے اور دونوں علاقوں کے تاریخی اور ثقافتی تعلقات بھی ناقابل تردید ہیں۔ اگرچہ طویل مدتی سوویت عملداری نے وسطی ایشیا کی ثقافت‘ سیاست اور علاقائی رخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور ان علاقوں‘ جو تاریخی طور پر اپنے جنوب اور مغرب میں مسلم تہذیب کے ساتھ جڑے ہوئے تھے‘ کو اپنا رخ شمال کی جانب موڑنا پڑا۔ اس تبدیلی نے وسطی ایشیا کی تہذیب‘ ثقافت‘ زبان‘ مذہب‘ سوچ بچار اور علاقائی اتحاد‘ غرض بہت کچھ تبدیل کر دیا۔ بہرحال ماسکو کی عملداری سے نکلنے کے بعد تین دہائیوں کے دوران وسطی ایشیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور آئندہ بدلاؤ کا یہ عمل مزید تیزی سے آگے بڑھنے کی امید ہے۔ وسطی ایشیا اور پاکستان کے قابلِ عمل زمینی رابطوں میں افغانستان حائل ہے اور افغانستان میں پچھلے تیس‘ چالیس برس کے حالات ایسے نہ تھے جو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے مابین رابطہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اس کا نقصان جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور افغان‘ تینوں خطوں نے اٹھایا ہے۔
ان رکاوٹوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مابین تجارت اور توانائی کی نقل و حرکت کا ایک بھی منصوبہ عملی کامیابی حاصل نہیں کر سکا‘ حالانکہ وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا کو بجلی کی فراہمی کا منصوبہ CASA 1000 اور گیس پائپ لائن کا منصوبہ TAPI‘ دونوں جنوبی ایشیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور اس خطے کی صنعتی ترقی کو بڑھانے کیلئے اہم ہیں۔ اسی طرح خشکی سے گھرے وسطی ایشیا کے خطے کو سمندری تجارتی گیٹ وے تک پہنچنے میں بھی مشکلات رہیں اور زمینی رابطہ کاری کا یہ عمل بوجوہ آگے نہ بڑھ سکا؛ تاہم افغانستان کی بدلتی صورتحال کے ساتھ یہ وقت وسطی ایشیا کے ساتھ نئے دور کے آغاز پر غوروفکرکا ہے۔ خشکی سے گھرے وسطی ایشیا کے علاقے کو بحری راستوں سے دنیا کے ساتھ ملانے کے حوالے سے پاکستان کی کلیدی حیثیت ہے‘ مگر افغانستان کے غیرمستحکم اور منتشر حالات اس سلسلے میں اب تک سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں؛ تاہم موجودہ حالات میں’’وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا علاقائی روابط، چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان نے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرکے وسطی ایشیا کے خطے کے رہنماؤں نے خود احساس دلایا ہے کہ وہ اپنے خطے کو جنوبی ایشیا کے ساتھ جوڑنے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ پاکستان کی خواہش بھی یہی ہے کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی راہداری قائم کی جائے مگر اس خواب کی تعبیر میں افغانستان کے حالات کا گہرا عمل دخل ہے؛ چنانچہ خطے کے ممالک کو مل کر اس مسئلے کے حل کی یقینی کوششیں کرنا ہوں گی۔ افغانستان میںگزشتہ بیس برس کے دوران مغربی حل کو پذیرائی نہیں مل سکی‘ اس کی وجوہ واضح ہیں؛ تاہم علاقائی سطح پر افغانستان کے مسئلے کے حل کی کوشش سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ پاکستان‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ ایران اور ترکی پر مشتمل نیا بلاک بنانے پر اتفاق ہو رہا ہے۔ اس مجوزہ بلاک کی اہمیت اور اس کے ممکنہ پوٹینشل کو دیکھتے ہوئے اس سے جس قدر امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ان کے تناظر میں اس بلاک کے قیام پر اتفاق کو بھی وزیر اعظم عمران خان کے اس دورہ ازبکستان کو ایک بڑی پیشرفت ماننا ہو گا۔ وسطی ایشیا کی ریاستیں‘ افغانستان‘ پاکستان‘ ایران اور ترکی ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں۔ نسلوں کی ثقافتی‘ مذہبی‘ لسانی‘ فکری قربت ہے اور وہ ایک دوسرے کے حالات اور مسائل کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں؛ چنانچہ افغانستان میں اب جبکہ تمام مغربی سیاست‘ منصوبہ بندی اور حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے تو اس ملک کو مزید انتشار سے بچانے کی ذمہ داری انہی ہمسایہ ممالک پر آن پڑی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں انتشار کے منفی اثرات صرف اس ملک کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں رہیں گے۔ ماضی میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا لہٰذا جب ہم انتشار اور عدم استحکام سے افغانستان کو بچانے میں مدد دینے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم دراصل اپنی مدد کر رہے ہیں۔ اس وسیع و عریض خطے میں تجارت‘ معیشت‘ سرمایہ کاری اور توانائی کے بے پناہ وسائل ہیں‘ مگر ان امکانات کو کھولنے کیلئے افغانستان میں امن اور استحکام بنیادی ضرورت ہے‘ جیسا کہ وزیر اعظم پاکستان نے ازبکستان میں وسطی ایشیا تک ریلوے لائن کے منصوبے میں پاکستان کی گہری دلچسپی کا ذکر کیا۔ کوئی شک نہیں کہ انفراسٹرکچر کے ایسے منصوبے مستقبل کی تجارتی ضروریات اور علاقائی روابط کی کنجی ہیں مگر ان کی تشکیل امن کے ماحول ہی میں ممکن ہے؛ تاہم امن کی ذمہ داری میں خود افغانوں کو بھی اپنا حق ادا کرنا ہوگا۔ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر عائد کرنا عذر خواہی اور اپنی ناکامیوں سے صرفِ نظر کے بہانے ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے مغربی ہمسایہ ملک کی حکومت کا دیرینہ وتیرہ ہے۔ اس دوران جب اُس حکومت کی عملداری تیزی سے سکڑ رہی ہے‘ وہ اس وقت بھی حقائق کو تسلیم کرنے میں دلچسپی ظاہر کرتی نظر نہیں آ رہی۔ خدشہ ہے کہ اشرف غنی سرکار کی یہ بے لچک پالیسی بے چارے افغانوں کیلئے مزید انتشار کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ افغان حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت پورے خطے کی نظر انہی کی جانب ہے اور افغانستان کے تمام ہمسایہ ملک ریاستی بحران سے دوچار اس ہمسایے کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔