اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغان صورتحال کے اثرات اور امریکی خواہش

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں صورت حال خراب ہوئے تو دہشت گردوں کے سلیپر سیل دوبارہ متحرک ہو سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا تعلق افغانستان کی صورت حال سے ہے۔ پاکستان کی جانب سے ان خدشات اور تحفظات کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں بگاڑ کا نتیجہ اس کے ہمسایہ ممالک‘ خاص طور پر پاکستان کو بھگتنا پڑ سکتا ہے اس کی وجہ وہ پاکستان مخالف دہشت گرد گروپ ہیں جو ایک لمبے عرصے سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اور پاکستان کی جانب سے جن کو لگام دینے کے بار بار کے مطالبات کے باوجود اشرف غنی کی افغان انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی‘ مگر اس کا نقصان صرف پاکستان نے نہیں اٹھایا بلکہ خود افغانستان اس سہولت کاری سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے؛ چنانچہ افغانستان میں استحکام‘ جس میں اس ملک کے سبھی ہمسایہ ممالک کی دلچسپی ہے مگر پاکستان اس میں پیش پیش ہے‘ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ افغان انتظامیہ اپنے طور پر حالات کا درست تجزیہ کرے‘ لیکن ظاہر ہے یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بیرونی اثر و رسوخ اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر اور خالص قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے غور و فکر نہیں کیا جاتا۔

واضح بات ہے کہ اب بھی معاملات کو سدھارنے کا انحصار بڑی حد تک کابل حکومت پر ہے‘ مگر طالبان کے مقابلے میں زمینی کنٹرول کم ہونے کے ساتھ ساتھ کابل حکومت کی بات چیت کی قوت بھی کم ہوتی جا رہی ہے؛ چنانچہ قبل اس کے کہ طالبان بچا کھچا علاقہ بھی بزور قوت حاصل کر لیں‘ کابل حکومت کو اپنی ساکھ کا خیال کرتے ہوئے صلح جوئی اور داخلی استحکام یقینی بنانے کی کوششوں کی طرف آنا ہو گا۔ افغانستان کے ہمسایہ ملک اس معاملے میں ہر طرح کے تعاون فراہم کرنے اور سہولت کاری کی یقین دہانی کروا چکے ہیں‘ جیسا کہ پاکستان کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم افغان سرزمین پر امن اور استحکام کو اپنی سرزمین پر امن و استحکام جتنی اہمیت دیتے ہیں‘ تو اس سے بڑھ کر کسی ہمسایہ ملک کے خلوص اور سنجیدگی کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟ جب پاکستان افغانستان کے لیے ان احساسات اور جذبات کا اظہار کرتا ہے تو یہ محض لفاظی یا جذباتی بیان بازی نہیں ہوتی‘ زمینی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ دونوں ریاستوں میں چولی دامن کا ساتھ انہیں ایک دوسرے کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہنے دیتا۔ اگر افغانستان میں عدم استحکام ہو گا‘ خانہ جنگی ہو گی‘ معاملات ٹھیک نہیں چل رہے ہوں گے‘ ایک مستحکم اور سب کے لیے قابلِ قبول حکومت قائم نہیں ہو گی تو لا محالہ یہ صورت حال پاکستان کے لیے منفی اثرات لے کر آئے گی‘ جبکہ افغانستان کا استحکام اور امن پاکستان کے لیے سماجی‘ معاشی‘ دفاعی‘ کئی طرح سے باعث راحت ہو گا۔ افغانستان میں امن عمل کے لیے پاکستان کی تمام تر کوششیں اور ہر طرح کے تعاون کی بنیاد اسی میں تھی‘ مگر امن عمل کی پیش رفت حسب توقع نہیں رہی۔ اس کی وجوہ بڑی واضح تھیں کہ بین الافغان ہم آہنگی کا جو مرحلہ اس عمل کا ناگزیر حصہ تھا‘ اس کی تکمیل کے سلسلے میں افغان حکومت اور دیگر با اثر دھڑوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہی امن عمل کا ہدف نہیں تھا‘ بلکہ انخلا کے بعد کے حالات اور ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی تیاری اور منصوبہ بندی بھی درکار تھی‘ مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس معاملے میں اشتباہ کو بڑھایا گیا‘ اور امریکہ کا انخلا کا اعلان اور کابل حکومت کا رویہ بین الافغان تصفیے کی راہ میں رکاوٹ بنتے دکھائی دینے لگے۔ ان حالات نے افغانستان کے مستقبل کے بارے گہرے شبہات اور خدشات پیدا کر دیے۔

یہ خدشات بدستور موجود ہیں کیونکہ بین الافغان ہم آہنگی اور سیاسی تصفیے کی ابھی کوئی قابل عمل صورت سامنے نہیں آ سکی؛ اگرچہ قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا عمل جاری ہے‘ مگر بات چیت کا عمل کسی عملی پیش رفت کے بغیر جاری ہے اور افغانستان میں پائیدار امن کا مستقبل بدستور خطرے سے دوچار محسوس ہوتا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کا یہ کہنا کہ پاکستان افغانوں کے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے‘ حیران کن معلوم ہوتا ہے۔ اصولی طور پر پاکستان یا دیگر علاقائی اور عالمی سہولت کار مقدور بھر اپنا کردار ادا کر چکے ہیں‘ اور اب خود افغانوں کی باری ہے کہ وہ اپنے ملک میں جنگ بندی اور قیام امن یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کریں‘ مگر قطر سے لے کر کابل تک افغان اس معاملے میں ہمیں مایوس کر رہے ہیں۔ خواہش تو یہ تھی کہ غیر ملکی انخلا کے ساتھ افغانستان میں ایک نیا دور شروع ہوتا‘ جس کا نقطہ آغاز خون خرابے میں نہیں بلکہ امن کے ماحول میں ہوتا مگر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ شہر شہر لڑائی کی خبریں ہیں‘ اور افغانستان کے عام آدمی کے حالات جو پہلے ہی بہتر نہ تھے مگر نئی خانہ جنگی کے آثار نے انہیں مزید مایوس اور عدم تحفظ سے دوچار کر دیا ہے۔ افغانستان کی یہ صورت حال بے شک پاکستان کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ بھارت کو ایک طویل عرصے سے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے دستیاب رہی ہے؛ چنانچہ انتشار کے ماحول میں پاکستان کے دشمن افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں مزید بے باک ہو سکتے ہیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement