اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغان تنازع ، مذاکرات اور خوش اُمیدی

افغان طالبان کے سربراہ ملا ھبت اللہ کا عیدالاضحی سے قبل آنے والا بیان‘ جس میں انہوں نے تنازع کے سیاسی حل کی شدت سے حمایت کی ہے‘ افغانستان کی صورتحال میں بڑی توقع معلوم ہوتا ہے۔ طالبان رہنما کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات جاری ہیں۔ اگرچہ افغان دھڑے پچھلے کئی ماہ سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں‘ مگر ابھی تک کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔ اس دوران طالبان کی پیش قدمی تیزی سے جاری رہی اور جیسا کہ چند روز پہلے طالبان رہنماؤں نے خود کہا کہ افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر انہیں کنٹرول حاصل ہو چکا ہے؛ چنانچہ آنے والے دنوں کا منظرنامہ بڑی حد تک واضح ہو رہا ہے‘ اس لیے افغان رہنماؤں میں نتیجہ خیز گفتگو اور جلد کسی پائیدار حل تک پہنچ جانا افغان عوام‘ افغانستان اور خطے کے وسیع تر مفاد میں ضروری ہے۔ مذاکرات کے حالیہ دور کے ساتھ یہ امید وابستہ کی جا رہی ہے کہ افغان دھڑے کسی قابل قبول حل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ دونوں جانب کی اعلیٰ قیادت مذاکرات کر رہی ہے اور فریقین نے ہر طرح کے معاملات پر کھل کر اور اچھے ماحول میں بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ طالبان کا مثبت رویہ اور سیاسی تصفیے اور حل میں گہری دلچسپی سے مذاکرات کے اس دور کے نتیجہ خیز ثابت ہونے کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت جب طالبان افغان سرزمین کے بیشتر حصے کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں‘

افغانستان کو خوفناک خانہ جنگی سے صرف اسی صورت بچایا جا سکتا ہے اگر اشرف غنی حکومت خالصتاً ملکی اور قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔ تصادم کا نتیجہ سوائے خونریزی کے کچھ نہیں ہو گا اور ان بحران میں افغانستان مزید کتنا برباد ہو گا اس کا ابھی کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ افغان رہنماؤں کو یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ اب بحران سے بچ نکلنے کے لیے افغانوں کے پاس بہت کم وقت بچا ہے‘ لہٰذا اس موقع پر بات چیت کا جو بھی موقع میسر ہے‘ اسے غنیمت جانتے ہوئے اس سے کچھ برآمد کریں۔ حکمرانوں کا یادِ ماضی سے نکلنا اگرچہ مشکل ہوتا ہے مگر دانشمندی اور سیاسی بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ حالات کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ افغان حکومت اگر یہ کر سکے تو اسے یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ طالبان کے مقابلے میں اس کا اختیار تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ حکومتی افواج کے مقابلے میں طالبان کا پلڑا واضح طور پر بھاری ہے اور اس صورتحال میں انہیں قدرتی طور پر نفسیاتی برتری بھی حاصل ہے۔ افغانستان کا حکومتی انفراسٹرکچر بھی توقعات کے مطابق نتائج نہیں دے پا رہا۔ دفاع ہی کو لے لیں‘ افغان ڈیفنس فورس طالبان کے مقابلے میں شدید ہزیمت کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں چاہیے کہ دونوں جانب سے طاقت کا استعمال روک دیا جائے اور ’جو ہے جیسے ہے‘ کا سٹیٹس قائم کرکے عسکری محاذوں سے توجہ مذاکراتی میزوں کی طرف مبذول کی جائے۔

افغانستان کا قریبی ہمسایہ ہونے کے ناتے پاکستان کی اولین خواہش ہے کہ افغان سرزمین نیا میدان کارزار بننے کے بجائے امن و ہم آہنگی کا گہوارہ بن جائے مگر یہ کام صرف ہمارے چاہنے سے نہیں ہو سکتا‘ افغان رہنماؤں کی حقیقت پسندی ہی اس خواب کو عملی صورت دے سکتی ہے اور اس کا راستہ مذاکرات کے ادوار سے نکل سکتا ہے۔ قطر میں جاری مذاکرات افغان صورتحال میں شاید آخری موقع ہیں جو افغانوں نے خود اپنی کوشش سے پیدا کیا ہے‘ مگر یہ مرحلہ بھی اگر نشستند‘ گفتند و برخاستند ثابت ہوا تو افغانستان کی زمینی صورتحال کے مد نظر یہ کہنا مشکل نہیں کہ افغان رہنماؤں کے لیے مستقبل قریب میں معنی خیز مذاکرات کا امکان باقی نہیں رہے گا‘ اور اس صورت میں افغانستان کو مزید انتشار اور خون خرابے سے بچانا بھی شاید ممکن نہ رہے۔ طالبان اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ تنازع کے سیاسی حل کے شدت سے حامی ہیں اور قیام امن کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور ہر ذریعہ بروئے کار لائیں گے تو افغان حکومت اس امکان سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی کا اظہار کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے؟ اصولی طور پر حکومت کو اس صورتحال میں زیادہ متحرک اور پُرعزم سفارتکاری کرتے ہوئے دکھائی دینا چاہیے تھا‘ مگر افغان حکومتی سست روی کی شکایت طالبان بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملا ھبت اللہ نے اپنے اِسی بیان میں حکومتی دھڑے کو وقت ضائع کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا موقف ہے کہ بیرونی طاقتوں پر انحصار کیے بغیر ہم مل  کر اپنے مسائل کا حل تلاس کریں اور اپنے ملک کو اس اٹھتے ہوئے بحران سے بچا لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی صورتحال میں اس سے بہتر کوئی پالیسی نہیں ہو سکتی کہ افغان خود مل کر اس مسئلے کو حل کریں۔ اگرچہ پاکستان اور دیگر ہمسایہ اور دوست ممالک ہر طرح سے مدد کرنے کے لیے آمادہ و تیار ہیں مگر مسئلے کے بنیادی فریق اگر خود ہی مسئلہ حل کر لیں تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ افغانوں کو یہ مان کر چلنا ہو گا کہ ان کے مسائل قومی‘ مذہبی یا نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی ہیں اور سیاسی مسائل کو سیاسی انداز ہی سے حل کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرکے اور تنوع کو قبول کرکے سیاسی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ افغانستان جس افراتفری سے دوچار ہے اسے بچانے کے لیے افغان دھڑوں کو بغیر وقت ضائع کیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement