اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

خطبۂ حج‘ عیدالاضحی اور امتِ مسلمہ

آج اہلِ پاکستان عیدالاضحی پورے مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔ جانور قربان کر کے سنتِ ابراہیمی کی پیروی کر رہے ہیں اور اس عزم و ارادے کا اظہار بھی کہ وقت پڑنے پر وہ اللہ کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے اور اس کے احکامات پر عمل کریں گے۔ مسجدالحرام کے خطیب اور امام شیخ بندر بن عبدالعزیز بلیلہ نے پیر کے روز خطبۂ حج میں اسی بات پر زور دیا اور کہا کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اسی سے مدد مانگو، اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کے مطابق حساب لے گا۔ انہوں نے کہا کہ عداوت اور نفرت کو ختم کرنا چاہئے، بندوں کی سلامتی، ملک کے استحکام اور لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں اور کاموں کی ادائیگی پر قادر بنانے کی کوشش کرنا بھی احسان میں داخل ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ہدایت ہے کہ تمام مسلمانوں کو آپس میں متحد ہو کر رہنا چاہیے جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ عداوت و نفرت کو ترک کر کے محبت و یگانگت کو فروغ دیا جائے اور سب کے حقوق کا خیال رکھا جائے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھ کر اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کر کے ہی ہم ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ امامِ کعبۃ اللہ نے حدیث شریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھیل گیا ہے تو اس علاقے کی طرف نہ جاؤ اور وہاں رہنے والے اس طاعون کی جگہ سے باہر نہ نکلیں۔ یہ اشارہ بلکہ ہدایت ہے کہ ہمیں کورونا یا کسی بھی مقامی یا عالمی وبا کا مقابلہ صبر‘ تحمل اور اس حکمتِ عملی کے تحت کرنا چاہیے‘ جس کا سبق نبی اکرمﷺ نے ہمیں دیا ہے کیونکہ جب وبا زدہ علاقے سے کوئی وبا زدہ شخص دوسرے علاقے میں جائے تو وہ بیماری کے پھیلائو کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آخری نبیﷺ نے جو حکمت چودہ سو سال پہلے بیان کی‘ آج کی جدید سائنسی تحقیق اس کو عملی طور پر تسلیم کرتی اور اس پر زور دیتی ہے۔

آخر میں امامِ کعبہ نے فرمایا کہ حجاج کرام دعا کریں تو اپنے لیے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ممالک و شہروں کے لیے بھی دعا کریں کیونکہ آپ جب دعا کرتے ہیں تو آسمان اور زمین کے فرشتے فخر کرتے ہیں۔ یہ پوری امتِ مسلمہ اور پورے عالمِ انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ سے آسودگی اور خوش حالی طلب کرنے کی ہدایت ہے تاکہ روئے ارض کو امن و یکجہتی کو گہوارہ بنایا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کو اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے‘ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ دو باتیں بالکل واضح ہے؛ اول‘ مسلم دنیا ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں باقی اقوام عالم سے پیچھے رہ گئی ہیں‘ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ان معاملات پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ہم یورپ اور دیگر اقوامِ مغرب کے مرہونِ منت رہنے کے بجائے مختلف شعبوں میں خود کفیل ہو سکیں اور اپنی تقدیر کے خود مالک بن سکیں۔ دوم‘ گزشتہ صدی کے آخری ربع میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جس عفریت نے سر اٹھایا اور پھر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ اس کا ذمہ دار مسلم دنیا کو ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ شدت پسندی ترقی یافتہ مغربی دنیا میں بھی کچھ کم نہیں۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح بلا وجہ تو سامنے نہیں آئی۔ ہمیں اس تاثر کو ختم کرنے اور دہشت گردی کے پس منظر میں کارفرما اصل عوامل کو اجاگر کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے تاکہ اس حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے اور دنیا یہ حقیقت جان سکے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ آج کا دن ہم سے تزکیہ نفس کا مطالبہ‘ خود احتسابی کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے اور خود سے سوال کیجیے کہ روزمرہ زندگی میں ہم سب کس قدر ایمان دار ہیں اور اپنے فرائض کی ادائی میں کس قدر دیانت دار؟ اسی سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کس قدر بجا لاتے ہیں اور اسلامی اصولوں کی کتنی پیروی کرتے ہیں۔ اگر اس سوال کا جواب منفی میں آئے اور دل و ذہن مطمئن نہ ہوں تو ضروری ہے کہ اپنے معاملات پر توجہ دی جائے کہ آج کا دن ایمان داری اور دیانت داری کے تجدیدِ عہد کا بھی دن ہے۔ اللہ تعالیٰ اور خود سے پیمان باندھیے کہ آئندہ کے لیے صراطِ مستقیم اختیار کریں گے۔ خوشیوں اور مسرتوں سے معمور یہ متبرک دن ایسے موقع پر طلوع ہو رہا ہے جب دنیا کم و بیش پچھلے ڈیڑھ سال سے کورونا کی عالمی وبا کا سامنا کر رہی ہے؛ اگرچہ اس عرصے میں کورونا کی ویکسین بنائی جا چکی ہے؛ تاہم وائرس کی جدید اور نئی صورتوں کے ظہور سے دنیا ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہو رہی ہے۔

پاکستان کو بھی اس وقت کورونا کے ڈیلٹا وائرس کا سامنا ہے جس کے کیسز کا گراف روز بروز بلند ہوتا جا رہا ہے۔ عید ضرور منائیں‘ قربانی سمیت تمام واجبات بھی احسن انداز سے پورے کریں مگر احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں۔ ابھی ہم ویکسی نیشن میں اس مقام پر نہیں پہنچ سکے کہ جہاں پر ماسک کی پابندی ختم ہو جائے۔ ویکسین کی بدولت آپ خود تو وائرس سے محفوظ ہو سکتے ہیں مگر ماسک نہ پہننے کی صورت میں وائرس کو آگے پھیلانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں، اس لیے جب تک کم از کم ملک کی نصف آبادی کو ویکسین نہیں لگ جاتی‘ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں۔ علاوہ ازیں عید کی خوشیوں میں اپنے ارد گرد کے محروم طبقات اور مستحقین کو لازمی یاد رکھیں کہ یہ عید ایثار و قربانی اور اپنی آسائشوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو فوقیت دینے کا ہی نام ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement