بھارتی سائبر کرائمز اور عالمی برادری
پاکستان کی جانب سے بھارتی جاسوس سرگرمیوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان کے مطابق ’’ذمہ دارانہ ریاستی رویے کی صریحاً خلاف ورزی پر ہم اقوام متحدہ کے متعلقہ شعبوں پر زور دیتے ہیں کہ معاملے کی مکمل تفتیش کروائی جائے‘ حقائق کو منظرعام پر لایا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے‘‘۔ جھوٹی اطلاعات کا پھیلاؤ‘ سائبر جاسوسی اور سائبر حملے پانچویں نسل کی جنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھنے کے ساتھ انفارمیشن کے شعبے کے جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ جرائم ریاستوں‘ اداروں اور افراد کے خلاف یکساں رفتار سے جاری ہیں۔ جن ممالک کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں برتری حاصل ہے وہ اس صلاحیت کا ناجائز استعمال کرنے پر بھی اسی طرح قادر ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ مہارت اور سہولیات کا مجرمانہ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ بھارت اس سلسلے میں ایک مثال ہے جو ملکی‘ علاقائی اور عالمی سطح پر انفارمیشن کی جنگ کو نہایت بے شرمی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ میں بھارت کے اس گھناؤنے کردار سے پردہ ہٹایا گیا تھا۔ اس رپورٹ سے معلوم ہوا تھاکہ بھارتی سرپرستی میں چلنے والی 750 سے زائد ویب سائٹس‘ جو 119 ممالک میں پھیلائی گئی تھیں‘ پچھلے پندرہ برسوں سے پاکستان کے خلاف جھوٹ پھیلا رہی تھیں۔
ففتھ جنریشن وار کے اس سے بڑے سلسلے کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس تفصیلی رپورٹ میں جھوٹ پھیلا کر پاکستان کا امیج خراب کرنے کی کوششوں کے طریقۂ واردات پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔ جھوٹ کی فیکٹریاں چلانے اور معزز سمجھے جانے والے اداروں اور افراد کے نام پر بے بنیاد اطلاعات پھیلانے والا یہ نیٹ ورک منظرعام پر آنے کے بعد اصولی طور پر بھارت سے عالمی سطح پر پوچھ تاچھ ہونی چاہیے تھی‘ مگر ایسی کوئی قابلِ ذکر پیشرفت نظر نہیں آئی۔ حالیہ دنوں بھارت کی جانب سے جاری ففتھ جنریشن وار کے نئے شواہد سامنے آئے کہ اسرائیلی سائبر فرم کے تیارکردہ سپائی ویئر کو استعمال کرنے والے ممالک میں بھارت بھی شامل تھا۔ ذرائع ابلاغ کے 17 عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق بھارت نے جاسوسی کے اسرائیلی سافٹ ویئر کے ذریعے سینکڑوں موبائل فونز کی جاسوسی کی‘ جن میں ایک فون ایسا بھی ہے جسے وزیر اعظم عمران خان استعمال کر چکے تھے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی جدتوں کا بڑھتا ہوا منفی استعمال دنیا کیلئے بے چینی کا سبب ہونا چاہیے۔ انفارمیشن پر مبنی ہتھیاروں نے دنیا کا سکون اور اعتماد ختم کردیا ہے۔ یہی سہولتیں اور جدتیں جہاں بنی نوع انسان کی بہتری اور ترقی کیلئے بے پناہ فوائد کی حامل ثابت ہورہی ہیں‘ وہاں ان کے منفی اور غیراخلاقی استعمال نے انہیں انسانوں کیلئے خطرناک بنا دیا ہے۔ ففتھ جنریشن وار نے دنیا میں حالتِ امن والی کیفیت کا خاتمہ کردیا ہے۔ سائبر جاسوسی‘ چوری اور نقصان پہنچانے کی صلاحیتوں نے ممالک اور افراد کو ہمہ وقت خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ یہ صورتحال دنیا کے معاشی‘ پیداواری نظام کے لیے تو غیرمعمولی خطرہ ہے ہی‘ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس منفی استعمال نے دنیا کو اعتماد سے محروم کردیا ہے۔ دنیا میں صحت مند ماحول اور پائیدار امن کیلئے ضروری ہے کہ سائبر ٹیکنالوجی کے استعمال کی ریگولرائزیشن کا کوئی نظام بنایا جائے۔ عالمی سطح پر سائبر تحفظ کے ایسے قواعد لاگو ہونے چاہئیں جو ریاستوں‘ اداروں اور شہریوں کو جاسوسی‘ چوری اور دھوکہ دہی کے مقابلے میں تحفظ فراہم کرسکیں۔ سائبر چوری اور دھوکہ دہی کے سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیوں کے یہ دعوے بالکل بے بنیاد ہیں کہ وہ اپنی ان مصنوعات کی مدد سے خفیہ اداروں اور حکومتوں کی استعدادکار میں اضافہ کرتی‘ اس طرح انسانوں کو دہشتگردانہ حملوں اور جرائم سے بچاتی ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے‘ دراصل سائبر جاسوسی‘ چوری اور دھوکہ دہی کی ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات کے ذریعے دنیا کو زیادہ ناقابل اعتباراور غیرمحفوظ بنا رہی ہیں۔ اس بڑھتے ہوئے عدم تحفظ نے ریاستوں‘ اداروں‘ کمپنیوں سے لے کر عام آدمی تک کو متاثر کیا ہے اور اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر تحفظ یقینی بنانے کیلئے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنیوں کا یہ بہانہ کہ وہ اپنی جاسوسی کی مصنوعات کی مدد سے انسانوں کی مدد کر رہی ہیں‘ جدید ٹیکنالوجی پر اختیار رکھنے والی کمپنیوں کا انسانی بے بسی پر قہقہہ ہے۔ اس صورتحال کو کسی قاعدے قانون کا پابند کرنے کیلئے دنیا کو مشترکہ طور پر سوچنا ہوگا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ جو اپنی برکات اور افادیت سے انسانی حال اور مستقبل کی جہتیں تبدیل کر سکتی تھی‘ کا یہ نہایت گھٹیا استعمال ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں اور ریاستوں کی جاسوسی کی جائے‘ جھوٹ پھیلایا جائے۔ اس میں ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال بھی ہو رہا ہے اور منفی بھی؛ تاہم بتدریج ان صلاحیتوں کا منفی استعمال بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ سائبر حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ یہ صورتحال انفارمیشن ٹیکنالوجی کے محفوظ مستقبل کیلئے بھی ایک چیلنج ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کو واقعتاً انسانی فائدے کی چیز بنائے رکھے نہ کہ ففتھ جنریشن وار کا ہتھیار۔ یہ کام سخت ریگولیشن اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہی سے ممکن ہے۔ اس کا آغاز بھارت کی جانب سے جاری سائبر کرائمز کے سدِ باب سے ہونا چاہیے!