اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سی پیک پیشرفت اور بھارت کی منفی سیاست

وزارت خارجہ کی جانب سے بھارتی نائب وزیر خارجہ کے پاک چین راہداری اور افغانستان کے حوالے سے بیانات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ افغانستان کی صورتحال اور پاک چین اقتصادی راہداری ایسے معاملات ہیں جن میں بھارت فریق نہیں۔ امریکی تسلط کے دوران  بھارت نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی مگر یہ حقیقت واضح ہے کہ یہ افغانستان کے بہتر اور مستحکم مستقبل پر سرمایہ کاری نہیں تھی بلکہ امریکی دعوت پر بھارت افغانستان کے کیک سے اپنا حصہ اٹھا رہا تھا‘ مگر افغانستان میں بھارت کا حصہ وہی تھا جو اس نے امریکی  نوازشات سے وصول کر لیا۔ بھارت کا افغانستان کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں ملتا‘ نہ ہی زبان‘ ثقافت یا کسی دوسرے حوالے سے کوئی ایسا تعلق موجود ہے‘ اس لیے بھارت کی افغانستان میں دلچسپی حیران کن ہی نہیں باعث تشویش بھی ہے۔ خاص طور پر افغان صورتحال پر بھارتی قیادت کے بیانات اور غیرضروری دلچسپی کی وجہ سے یہ اندیشہ مزید زور پکڑ لیتا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد کے دور میں بھارت افغانستان میں انتشار کو بڑھاوا دینے اور استحکام کی جانب پیشرفت پر اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کرے گا۔ زیادہ دن نہیں گزرے‘ یہ اطلاعات آئی تھیں کہ بھارت کی جانب سے خصوصی طیاروں کے ذریعے افغانستان میں اسلحہ پہنچایا گیا ہے۔ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد بھارت افغانوں میں انتشار پھیلانے کی پوری کوشش کرسکتا ہے۔ چونکہ افغانستان میں انتشار اور کشیدگی کا براہ راست اثر افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر پڑے گا اس لیے پاکستان سمیت افغانستان کے سبھی ہمسایہ ممالک کو بھارت کی تخریبی سوچ اور حکمت عملی سے ہوشیار رہنا ہوگا۔

یاد رہے کہ ماضی میں بھارتی مداخلت نے افغانستان کو پاکستان سمیت اس خطے کے کئی ممالک کے لیے دہشتگردی کا مرکز بنا دیا تھا۔ اگرچہ امریکہ یہاں ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے نعرے کے ساتھ اترا تھا‘ مگر امریکہ کی نظروں کے سامنے بھارت افغان سرزمین کو تخریب کاری اور دراندازی کیلئے استعمال کرتا رہا۔ افغانستان کی طرح پاک چین اقتصادی راہداری بھی بھارت کیلئے غیرمتعلقہ موضوع ہے مگر بدامنی‘ بے اعتمادی اور کشیدگی کے ذریعے جنوبی ایشیا پر حکومت کا خواب دیکھنے والے بھارت کا سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا بھی کوئی نئی بات نہیں۔ دنیا کے اس حصے کا یہ سب سے بڑا بین الا قوامی ترقیاتی اور رابطہ کاری کا منصوبہ بھارتی منصوبہ بندی کا توڑ ثابت ہورہا ہے‘ اسی لیے بھارت پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ سی پیک کے منصوبے جنوبی ایشیا کے ممالک کو گہرے روابط‘ تعلقات اور باہمی مفادات کے ذریعے منسلک کر رہے ہیں اور بھارت جو اپنے اردگرد کمزور راجدھانیوں کے ذریعے خود کو خطے کا سرپنچ ثابت کرنے کی کوشش میں تھا‘ اب اس کا پچھواڑا اس کے اثرورسوخ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ابھی تو اس بین الاقوامی کھیل کا آغاز ہے اور نیپال سے لے کر بنگلہ دیش تک بھارت کے اثرورسوخ سے جان چھڑا چکے ہیں۔ بھارت اس ناکامی کی کسر افغانستان میں مداخلت کے ذریعے پوری کرسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مابین پل کی حیثیت رکھنے والی اس سرزمین کو قابو کرکے اس منفی سیاست اور تخریب کاری کو ترویج دی جا سکے‘ مگر حالات یہ ثابت کررہے ہیں کہ بھارت کی یہ حکمت عملی بھی اسے الٹ پڑ جانے والی ہے۔ عملی اور اصولی طور پر افغانستان بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ان حالات میں شکست خوردہ بھارت سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ خدشات بے بنیاد نہیں کہ اس صورتحال میں بھارت تخریب کاری کی گھناؤنی سازشوں کو عملی صورت دے سکتا ہے۔ ملک میں پچھلے کچھ  عرصے کے دوران دہشتگردی کے سلسلہ وار واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں؛ چنانچہ یہ خدشات موجود ہیں کہ اس سے ملتی جلتی مزید وارداتیں دشمن کی جانب سے کروائی جا سکتی ہیں۔ اس جانب سے ہر لمحہ چوکس رہنا ہمارے سکیورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ بھارت کے ظاہری اور خفیہ حملوں کا بروقت توڑ کرنے کی اہلیت ہمارے اداروں میں موجود ہے اور ہمیں اعتماد ہے کہ بھارت کو اس کی منفی سیاست اور گھٹیا کھیل میں ناکامی ہوگی۔ پاکستان اور چین کی گہری دوستی اور باہمی اعتماد اس صورتحال کا لازمی تقاضا ہے۔

دونوں ممالک کو مل کر یقینی بنانا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں دنیا کے اس حصے میں بے مثال ترقیاتی اور معاشی مواقع جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ انسانی ترقی‘ خوشحالی اور استحکام کے عظیم مقاصد پر مبنی ان منصوبوں کو کرشماتی رفتار کے ساتھ مکمل کرنا ہوگا۔ ان منصوبوں میں وقت کی اہمیت غیرمعمولی ہے کیونکہ ان کا تعلق عام طور پر ایسے ممالک اور آبادیوں سے ہے‘ جو پسماندہ یا ترقی پذیر ہیں اور کثیر آبادی والے ممالک کو اپنی نوجوان نسل کیلئے روزگار کے مواقع جتنے جلد حاصل ہو سکیں ان کیلئے داخلی سطح پر اتنا ہی بہتر ہے۔ چین یہ جانتا ہے‘ ہمیں بھی سمجھنا چاہیے۔ سی پیک کے منصوبوں میں آلکسی رویے کو ممنوع قرار دیا جائے۔ بے شک بڑے منصوبوں پر سوچ بچار‘ منصوبہ بندی اور پیش رفت کی اپنی ایک رفتار ہوتی ہے‘ راتوں رات کوئی دیوہیکل منصوبہ مکمل نہیں کر سکتے مگر یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ برسوں سے جاری منصوبوں میں کوئی پیشرفت دکھائی نہ دے۔ ہمیں سی پیک اور علاقائی سیاست میں بھارت کی غیر ضروری پھرتیوں کو اپنے لیے چیلنج سمجھنا چاہیے۔ سی پیک پر پیشرفت خطے میں بھارت کی منفی سیاست کا چراغ گل کر دے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement