اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

کورونا ، احتیاطی اقدامات اور پابندیاں

ملک میں کورونا کی چوتھی لہر کے دوران بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر حکومت نے بعض پابندیوں کے از سر نو نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے مطابق بازاروں کے اوقات کار رات آٹھ بجے تک کرنے‘ ریستورانوں کے اندر کھانا کھانے پر پابندی‘ دفاتر میں50 فیصد حاضری‘ پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے آدھی سواریاں بٹھانے اور ہفتہ وار دو دن چھٹی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نئی پابندیاں تین سے 31 اگست تک ملک کے اہم شہروں میں نافذ رہیں گی۔وبا کے کیسز میں حالیہ دنوں تشویش ناک تیزی حکومت کی جانب سے جلد از جلد اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔حالیہ لہر میں وائرس کی جو قسم کارفرما ہے‘ اس کی پھیلاؤ کی صلاحیت خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں کورونا کے نئے کیسز اور ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا سبب ڈیلٹا وائرس ہے جو132 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ ان حالات میں جو بتدریج خطرناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں‘ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کی فوری ضرورت تھی جو وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکیں یا اس عمل کو سست کر سکیں۔ پاکستان اس معاملے میں ماضی کے اپنے ہی تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتا اور دہرا سکتا ہے یعنی یہ کہ دوٹوک بندشیں مسئلے کا حل نہیں‘مگر کورونا کے وائرس سے ہوشیاری اور عقل مندی سے خود کو بچایا جاسکتا ہے‘ ماضی میں بھی پاکستان کی حکمت عملی یہی رہی اور امید ہے کہ موجودہ حالات میں بھی اسی طرح کیا جائے گا۔ عوامی سطح پر آگاہی کو پھیلانے کی زبردست ضرورت ہے کہ ہر فرد اپنی اور اپنے متعلقین کی صحت و سلامتی کا ضامن ہے۔ وائرس جیسی غیر مرئی شے سے خود کو بچانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد نے اپنے ساتھ لگی کئی زندگیوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

بنیادی احتیاطی تدابیر پر عمل اس معاملے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور اس میں ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے کی عادت بنیادی طور پر اہم ہے۔ وائرس کی موجودہ شکل چونکہ زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس لیے سماجی فاصلے کے اصول کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے جن پابندیوں کو نئے سرے سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اگر ان پر عمل یقینی بنایا جائے تو وبا کے کیسز میں ضرورکمی آنی چاہیے ؛چنانچہ اس وقت بنیادی سوال یہی ہونا چاہیے کہ کیا ان احتیاطی تدابیر پر عمل ممکن بنایا جاسکے گا؟حکومت کی نافذ کردہ پابندیاں اپنی افادیت کے باوجود اپنی جگہ مگر وبا کی یقینی روک تھام کا ذریعہ ویکسی نیشن ہی ہے اس لیے پابندیاں از سر نو لگانے یا بڑھانے کے باوجود ویکسی نیشن کی مہم کو تیز کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ سائنسی مطالعات میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ویکسین نے کورونا کے پھیلاؤ کو 80فیصد سے زیادہ حد تک کم کیا ۔اگرچہ ڈیلٹا ویری اینٹ کے ساتھ نئے خدشات ابھر رہے ہیں؛ تاہم سائنسی تحقیقات میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ویکسین کی دو خوراکیں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرے کو 78 فیصد تک کم کر دیتی ہیں؛چنانچہ کسی بھی سوسائٹی میں کورونا وبا کی نئی لہرسے بچاؤ کا کلیدی انحصار ویکسین پر ہے اس لیے ویکسین کی مہم میں اب کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اقدامات کی ضرورت ہے۔ سندھ ‘ جہاں ان دنوں کیسز کی تعداد سب سے زیادہ ہے وہاں ویکسین کی سہولت کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں سند ھ میں کورونا ویکسین سنٹرز کے باہر ہجوم کی جو صورت نظر آئی وہ بذاتِ خود وبا کے پھیلاؤ کو دعوت دینے والا عمل تھا۔ حیرت ہے کہ صوبائی حکومتیں ان سادہ مگر اہم باتوں کو جانتے ہوئے بھی انتظامات میں ناکام رہتی ہیں۔ یہ کام این سی او سی کی سطح پر گائیڈ لائنز کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ویکسین کی مہم کو یقینی طور پر بڑھانے کیلئے گھر گھر مہم کا تجربہ کامیاب ثابت ہوا ہے ۔ پنجاب میں اس مہم کے دوران 24 گھنٹے میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ اس تجربے سے سیکھتے ہوئے دیگر صوبوں میں بھی اس پر عمل شروع کروانا چاہیے۔

اطلاعات کے مطابق سندھ میں گھر گھر ویکسی نیشن مہم شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس کام کو بغیر کسی تاخیر سے کیا جانا ضروری ہے ۔ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا ‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے میں بھی ویکسین کی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ عوام کو جلد از جلد وائرس کے خطرے سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ویکسی نیشن کی شرح بڑھانے کیلئے دہری پالیسی پر عمل کیا جانا ضروری ہے ‘ ایک طرف ویکسی نیشن مہم ایسی ہو کہ شہریوں کو رسائی میں دقت پیش نہ آئے جبکہ دوسری جانب ویکسین کو ہر شعبہ زندگی میں لازمی قرار دیا جائے تا کہ کوئی شہری جان بوجھ کر یا کسی افواہ کے زیرِ اثر ویکسین سے انکار نہ کر سکے۔ اندرونِ ملک فضائی سفر کورونا ویکسین کے ساتھ مشروط کرنا ایک ضروری اور بروقت اقدام ہے‘ ریل گاڑیوں اور بین الاضلاعی اور بین الصوبائی بس سفر کے لیے بھی یہی قاعدہ نافذ ہو ناچاہیے‘ اسی طرح مارکیٹوں اور دفاتر کے ملازمین کے لیے بھی۔عالمی ادارۂ صحت کے ہیلتھ ایمرجنسیز کے سربراہ مائیکل ریان کا یہ کہنا قابلِ غور ہے کہ ڈیلٹا ویری اینٹ اس امر کی تنبیہ ہے کہ کورونا وائرس صورتیں بدل رہا ہے مگر یہ عمل کی تاکید بھی ہے ‘ اس سے پہلے کہ کورونا وائرس اس سے بھی زیادہ خطرناک صورت اختیار کر لے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement