اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاکستان کا ویژن وسطی ایشیا

وزیر اعظم عمران خان نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہانِ مملکت کے اجلاس کے موقع پر کہا کہ پاکستان وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعلقات بڑھانے کے لیے پُرعزم ہے۔ وزیر اعظم نے وسطی ایشیا کے سرمایہ کاروں سے بات کی اور وسطی ایشیا سے بجلی کی سپلائی کے منصوبے CASA1000 کی تکمیل کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ توانائی کے وسائل سے بھرپور وسطی ایشیا جنوبی ایشیا کے اس حصے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں بڑا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ 1300 میگاواٹ بجلی کی ترسیل کا یہ منصوبہ کرغیزستان اور تاجکستان سے سستی پن بجلی افغانستان اور پاکستان کو ترسیل کرے گا۔ گزشتہ برس فروری میں اس منصوبے کا افتتاح صدر اشرف غنی نے کیا تھا۔ اس افتتاحی تقریب میں پاکستانی سفیر بھی موجود تھے‘ مگر ڈیڑھ سال بعد بھی 1200 کلومیٹر لمبے اس ٹرانسمیشن منصوبے کی کوئی واضح شکل سامنے نہیں آ پائی؛ اگرچہ تکنیکی طور پر یہ منصوبہ دوطرفہ فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں وسطی ایشیا کے پن بجلی گھروں کی فاضل پیداوار پاکستان اور افغانستان کو منتقل کی جائے جبکہ وسطی ایشیا کی برفانی سردیوں میں جب کرغیزستان اور تاجکستان کے پن بجلی گھر بند ہوتے ہیں اور اس موسم میں پاکستان میں بجلی کی فاضل مقدار موجود ہوتی ہے تو یہ بجلی ادھر سے شمالی مغربی افغانستان اور وسطی ایشیا کو منتقل کی جا سکتی ہے۔

اس وسیع فوائد کے حامل منصوبے کو مالی مشکلات کا بھی مسئلہ نہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ ورلڈ بینک‘ امریکہ اور کئی دیگر ممالک قریب ایک ارب ڈالر کے اس منصوبے پر سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں مگر یہاں گاہک اور بائع کی دلچسپی اور مفادات کے مابین افغانستان کے حالات کی اڑچن رہی ہے۔ ٹرانسمیشن لائنز کا ڈھانچہ جس سرزمین سے گزرے گا جب تک وہاں حالات استحکام کی کم از کم شرائط پوری نہ کر سکیں‘ اس وقت تک CASA1000 کا منصوبہ ڈرائنگز سے حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔ یہی بات مجوزہ ترمذ‘ مزار شریف‘ کابل‘ جلال آباد ریلوے کے بارے کہی جا سکتی ہے اور ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان گیس پائپ لائن کے بارے میں بھی۔ 1800 کلومیٹر طویل اس منصوبے پر بھی قریب چھ برس پہلے کام شروع ہوا تھا اور طے یہ تھاکہ 2018ء میں اس کے افغان اور پاکستان پورشنز پر کام شروع ہوگا‘ مگر گزشتہ برس تک اس منصوبے کیلئے مالی وسائل کا بندوبست ہی نہ ہو سکا؛ اگرچہ ترکمانستان اور اس منصوبے کی گیس کے خریدار ممالک میں قیمت فروخت کے قواعد پر اتفاق میں رکاوٹیں تھیں مگر ایک بڑا مسئلہ یہی تھاکہ دس ارب ڈالر کے اس منصوبے کا افغانستان میں استحکام سے گہرا تعلق ہے۔ ان کثیرملکی منصوبوں کی ضرورت و اہمیت میں کوئی کلام نہیں‘ نہ ہی ان کی تکنیکی افادیت کا سوال ہے‘ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ٹرانسمیشن لائنز خواہ کھمبوں کی صورت میں ہو یا پائپ لائنز کی صورت میں‘ انہوں نے جس زمین سے گزرنا ہے کیا وہاں سکیورٹی کی صورتحال مناسب ہے؟ یہ سوال ان منصوبوں کے لیے مالی وسائل کے بندوبست میں رکاوٹ بنا رہے گا۔ ظاہر ہے کوئی مالیاتی ادارہ بھی ان منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی ہامی اس وقت تک نہیں بھرے گا جب تک اسے اس بات کا یقین نہ ہوکہ یہ منصوبے عملی طور پر کارآمد ہیں اور ان سے وصولی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک‘ جو کثیر ملکی تجارتی راہداریوں اور توانائی کے منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے خواہش مند ہیں‘ کو افغانستان میں پائیدار استحکام کیلئے پُرعزم اور مخلص ہو کر کوششیں کرنی چاہئیں۔ چین‘ روس‘ وسطی ایشیا‘ پاکستان‘ ایران اور مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا حصہ زمینی راستوں سے ایک دوسرے سے منسلک ہو سکتا ہے بشرطیکہ پائیدار امن قائم ہو اور ہر ملک روابط کے ان عظیم تر وسائل کیلئے مخلصانہ کوششیں کرے۔ اس کام کیلئے جو موقع دنیا کے اس حصے کے پاس اس وقت ہے‘ اس سے پہلے کبھی نہ تھاکہ گزشتہ دو عشرے افغانستان میں امریکی افواج کے تسلط اور اُسی کے تخلیق کردہ سیاسی بندوبست کی نذر ہوئے اور اس سے پیچھے جائیں تو طالبان کی حکومت کا دور مسلسل کشیدگی اور خانہ جنگی کا دور تھا۔

طالبان کے علاقائی اور عالمی ویژن کے مسائل بھی تھے‘ مگر موجودہ دور اس لحاظ سے بہتر ہے اورامید کی جا سکتی کہ افغانستان کے مسائل کا حل وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے وسیع تر روابط سے عملی طور پر ممکن ہیں۔ وسطی ایشیا کے ممالک‘ پاکستان‘ چین‘ ایران اور روس کے نمائندوں اور رہنماؤں کے اس حوالے سے روابط‘ جو پچھلے ہفتوں میں خاص طور پر افغان صورتحال کے تناظر میں ہوئے‘ اس علاقائی اتفاق رائے کی خوش آئند علامت ہیں جبکہ وزیر اعظم پاکستان کو اس خاص صورتحال میں خطے کے اہم ممالک کے ساتھ بات چیت کا موقع شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس سے حاصل ہو گیا ہے۔ یہ فورمز اس خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے والی پیشقدمی کے ہم معنی ہیں۔ یہی اس خطے کے ممالک کی حقیقی منزل ہے۔ انہیں اصولی طور پر ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنا اور ایک وسیع تر ایشیائی دائرے کی صورت میں سامنے آنا ہے‘ مگر اس سے پہلے افغانستان کا مسئلہ حل کرنا ناگزیر ہے۔ تباہ حال افغانستان اس علاقائی زنجیر کی کمزور ترین کڑی ہے جبکہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہو یا پاک چین اقتصادی راہداری ایشیا کے ان بین الاقوامی منصوبوں سے دنیا کے اس حصے کے لوگوں کی تقدیر اور مستقبل وابستہ ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement