اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان میں متفقہ حکومت کیلئے مشاورت

وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں متفقہ اور مشترکہ حکومت کے قیام اور تاجک و ہزارہ برادری کی حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کے حالیہ اجلاس اور تاجکستان کے دو روزہ دورے کے اختتام پر وزیر اعظم کا یہ بیان اس لحاظ سے اہم ہے کہ تاجک صدر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنماؤں نے خطے کی صورت حال خصوصاً افغانستان پر گفتگو کرتے ہوئے جہاں عالمی برادری سے افغانستان کی امداد کی بحالی اور منجمد اثاثوں تک رسائی کی بات کی اور یہ کہا تھا کہ عالمی برادری کو جنگ زدہ افغانستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے‘ وہیں طالبان کو بھی یہ یاد دلایا تھا کہ انہیں اپنے وعدوں کی پاسداری کے لیے ہر قدم اٹھانا ہو گا اور جامع سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کا وعدہ پورا کرنا ہو گا۔ اہم علاقائی دورے کے بعد افغانستان میں ایک شمولیتی حکومت کی خاطر طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی گئی ہے تو یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ افغانستان کے معاملے میں پڑوسی ممالک کی گہری دلچسپی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ طالبان نے جس صورت حال میں انتظام سنبھالا وہ کوئی نارمل حالات نہیں تھے؛ چنانچہ اس قسم کے حالات سے دوچار کسی ملک کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مستقل خرابی کے سپرد کر دیا جائے۔ باقی دنیا کے لیے اس صورت حال کے جو بھی نتائج ہوں گے اس سے قطع نظر افغانستان کے پڑوسی ممالک کے لیے یہ براہ راست ان کی قومی سلامتی سے جڑا معاملہ ہے۔

اس لیے ان کے خیال میں یہ وقت کا تقاضا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ رابطے بڑھائے جائیں اور مشاورت کا عمل جاری رکھا جائے۔ طالبان کی جانب سے جو وعدے کیے گئے ہیں ان سے ان کی نیت اور ارادے کا پتا چلتا ہے مگر ان ارادوں کو عملی صورت دینے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے خطے کے ممالک کو افغانستان کے ساتھ قربت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ طے ہے کہ افغانستان کے مستقبل کی سمت کے تعین میں پڑوسی ممالک کی مشاورت اہم کردار ادا کرے گی۔ اصولی طور پر پوری دنیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان حالات میں نئے افغانستان کو مستحکم ہونے کے لیے کردار ادا کیا جائے‘ تاہم دنیا اگر اس معاملے میں دلچسپی نہ بھی دکھائے تو ہمسایہ ممالک کو پھر بھی یہ فریضہ انجام دینا پڑے گا کیونکہ ہم سبھی بہرحال افغانستان میں ماضی کی تاریخ کا اعادہ نہیں چاہتے۔ افغانستان میں امن کی پائیداری اور صورتحال کے استحکام کے لیے متفقہ حکومت ضروری ہے۔ بادی النظر میں طالبان کو خود بھی اس کا احساس ہے مگر اس جانب پیش رفت میں جو رکاوٹیں یا تحفظات ہیں وہ دور کرنے کے لیے افغانوں کو باہمی اعتماد کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت میں شمولیت اس قومی اعتماد میں اضافے کا سبب بنے گی۔ طالبان کو یقینا اس کا ادراک ہو گا کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران دنیا غیر معمولی طور پر بدل چکی ہے۔ اس دوران افغانستان خود بڑی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ آج کا نوجوان افغان فکری لحاظ سے دو عشرے پہلے کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ یہی ارتقا کا تقاضا ہے کہ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں۔ ٹیکنالوجی نے تبدیلی کے اس عمل کو مزید تیز کیا ہے‘ اس لیے طالبان قیادت کو یہ حقیقت مان کر چلنا ہو گا کہ انہیں آج جس ملک کا انتظام چلانا ہے‘ وہ اُس سے بہت مختلف ہے جو 2001ء میں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ اگر طالبان سلسلہ وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک ناکام تجربہ ہو گا اور دو عشرے کی طویل جدوجہد کے بعد انہیں جو موقع حاصل ہوا ہے اس کے ساتھ اس طرح کھلواڑ یقینا قرین انصاف نہیں۔ موجودہ افغانستان کو قدیم و جدید کی آمیزش کے ساتھ چلایا جائے تو اس میں استحکام اور کامیابی کے آثار نمایاں ہو سکتے ہیں۔ طالبان کا ایک حلقہ یقینا اس صورتحال کو بخوبی جانتا ہے۔

ہمیں یہ اعتماد بھی ہے کہ کم از کم دس برس کی عالمی سطح کی سفارت کاری اور عالمی رہنماؤں سے روابط سے طالبان نے بہت کچھ سیکھا ہو گا۔ ممکن ہے نچلی سطح پر کچھ کیڈرز ایسے ہوں جن کی سوچ ماضی میں اٹکی ہوئی ہو مگر طالبان قیادت  کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں یہ احساس بیدار کریں کہ انہیں وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنا ہے۔ افغان رہنماؤں میں اس سوچ کا ابھار اگر علاقائی تحریک کا متقاضی ہے تو اس کار خیر میں تاخیر کیسی؟ سبھی پڑوسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں رابطہ کاری تیز کریں اور طالبان کو باور کرائیں کہ دنیا ان سے کیا کچھ چاہتی ہے اور خطے کے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خود افغانستان کے مفادات کیا ہیں۔ صرف طالبان ہی نہیں افغانستان کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے اور آمادہ کیا جانا چاہیے کہ خود غرضی کے بجائے حقیقی قومی مفاد کو مطمح نظر بنائیں۔ افغانستان کے ان حالات میں جن رہنماؤں نے خود غرضی کا مظاہرہ کیا اور اس کشتی کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کر رفو چکر ہو گئے یا تصادم کی راہ چنی‘ تاریخ میں وہ بھی یاد رکھے جائیں گے اور جنہوں نے قومی مفاد کو مد نظر رکھا انہیں بھی‘ مگر تاریخ ہر دو طبقات کو ایک ہی پلڑے میں ہرگز نہیں رکھے گی۔ افغانستان اور خطے کا وسیع مفاد اسی میں ہے کہ افغان قومی ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھیں‘ کیونکہ دوسری کوئی صورت نہیں۔ افغانستان کے روشن مستقبل اور جامع استحکام کا راستہ ایک ایسی حکومت سے مشروط ہے جس میں سبھی دھڑوں کا اتفاق اور شمولیت ہو۔ انتظامی بنیادوں پر مضبوط ریاست کا قیام اس کے بغیر ممکن نہ ہو گا اور یہ کام جتنا جلد ہو سکے اتنا بہتر ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement