اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

حکومت‘ الیکشن کمیشن تناؤ کے مضمرات

وفاقی وزرا اور الیکشن کمیشن کے مابین کشمکش کا معاملہ ٹھنڈا پڑتا نظر نہیں آ رہا۔ وفاقی وزرا نے گزشتہ روز الزامات اور تحفظات کا ایک بار پھر اظہار کیا اور کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حق میں مواد کو الیکشن کمیشن نے ضائع کیا اور مشین پر دانستہ اعتراضات کیے گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات تو یہاں تک کہہ گئے کہ اگر چیف الیکشن کمشنر خود کو تنازعات سے علیحدہ نہیں کر سکتے تو استعفا دے کر سیاست میں آ جائیں۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کا یہ ٹکراؤ تشویشناک صورت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے اور الزامات کی بوچھاڑ کئی سوالات پیدا کر رہی ہے۔ ان میں کئی ایسے اہم اور آئینی نوعیت کے سوالات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز کا یہ دعویٰ ہی دیکھ لیں جو انہوں نے گزشتہ روز وزیر اطلاعات کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا کہ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر دو الگ چیزیں ہیں۔ معزز وزرا نے اسی پریس کانفرنس میں یہ بھی قرار دیا کہ دوسرے ارکان آگے بڑھیں اور چیف الیکشن کمشنر کے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ کیا یہ بیان الیکشن کمیشن کے ارکان کو اس آئینی ادارے کے اندر بغاوت پر اکسانے کے مترادف نہیں؟ کیا آئینی اداروں کے ارکان کو اس قسم کے اقدامات کے لیے ابھارنا درست اقدام ہے؟

الیکشن کمیشن کے ارکان کا مینڈیٹ اور اختیارات کیا ہیں اور قانون قاعدہ ان سے کیا تقاضا کرتا ہے‘ معزز ارکان اس معاملے کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور اعلیٰ سطح پر کام کرنے کے ان کے تجربے کے پیشِ نظر ایسا نہیں لگتاکہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے وزرا کی تجاویز کی ضرورت درپیش ہو۔ اس قسم کی دخل اندازی کا نتیجہ تصادم اور اداروں کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بہرحال قومی اداروں اور اعلیٰ ذمہ داروں کے مابین بات چیت اور نقطہ نظر کے ابلاغ کا جو جائز اور مروج قاعدہ ہے اس سے تجاوز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر حکومت اور اداروں کا تبادلہ خیال پریس کانفرنسوں اور ٹویٹس کے ذریعے ہونے لگے اور معاملات ذاتیات تک آ جائیں تو اداروں کی مضبوطی کی امید سے دست بردار ہو جانا پڑے گا۔ موجودہ حکومت کے ساتھ جو بڑی امیدیں وابستہ تھیں یا خواب جو اس سیاسی جماعت نے دکھائے تھے ان میں اہم ترین یہ تھا کہ یہ اداروں کو مضبوط کرے گی۔ ’’قوم سب سے پہلے اپنے ادارے مضبوط کرتی ہے‘ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اداروں کا مضبوط ہونا اہم ہے‘ اداروں پر انگلیاں اٹھانے والے جمہوریت کے علم بردار نہیں ہو سکتے‘ تحریک انصاف اقتدار میں آ کر ادارے مضبوط کرے گی‘‘ 2018ء کے انتخابات سے  قبل اور بعد میں بھی وزیر اعظم عمران خان سے یہی سنتے آئے ہیں مگر ان آرزوؤں کو عملی صورت دینے کے لیے جو لوازمات درکار ہیں وہ فراہم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ اس میں دو آرا نہیں کہ اداروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے سے ان کی مضبوطی کا سوال خارج از امکان ہو جاتا ہے۔ یہ صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بات نہیں ریاست کے کسی ادارے کو لے لیں‘ جب تک اداروں کو اپنے دائرہ کار میں آزادی نہیں دی جاتی اور قواعد و ضوابط کو شخصیات سے زیادہ وزن حاصل نہیں ہوتا اداروں کی مضبوطی بس ایک نعرے کی حد تک تو حاصل ہو سکتی ہے‘ حقیقی طور پر ہرگز نہیں۔ الیکشن کمیشن اور حکومت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین تنازع کی بنیادی وجہ بنی ہوئی ہے۔ حکومت اس سوچ پر قائم ہے کہ ووٹنگ مشین کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے جبکہ الیکشن کمیشن اپنے تکنیکی اعتراضات کی وجہ سے اس سسٹم کو اختیار کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ چونکہ ریاست کے اندر قومی انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے‘ اس لیے اصولی طریقہ یہی ہو سکتا تھا کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے مابین ووٹنگ مشین پر بات چیت چلتی اور کمیشن جو اعتراضات اٹھا رہا تھا‘ حکومت ان کے جواب دیتی اور کمیشن کو مطمئن کرتی۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں کسی معاملے یا مسئلے کو اسی طرح ہی حل کیا جاتا۔ ایسا نہیں کہ دیگر ممالک میں حکومتوں اور اداروں کے درمیان اختلافات پیدا نہیں ہوتے‘ مگر یہ کہ اختلافات کو ذاتیات کی حد تک نہیں بڑھایا جاتا اور قواعد و ضوابط کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی یہی اصولی طریقہ کار اپنایا جائے تو اختلاف کبھی بھی ذاتیات کی حد تک طول نہ پکڑیں۔ اداروں کی مضبوطی‘ جس کا ذکر وزیر اعظم عمران خان اپنی تقاریر میں اکثر کرتے ہیں‘ اِسی صورت ممکن ہو سکتی ہے۔

ووٹنگ مشین کے حوالے سے دونوں نقطہ ہائے نظر موجود ہیں‘ قریب بیس ممالک میں یہ مشینیں استعمال کی جاتی ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ ہمارے قریب ترین یہ مشینیں بھارت میں استعمال ہوتی ہیں‘ مگر 2019ء کے بھارتی انتخابات سے قبل وہاں کی سیاسی جماعتیں ان مشینوں پر تحفظات ظاہر کر چکی ہیں‘ جبکہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں کہلانے والا برطانیہ اپنے ساڑھے چھ سو ارکانِ پارلیمان کا انتخاب روایتی بیلٹنگ سے کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مثبت پہلوؤں ہی کو مد نظر رکھنا اور آنکھیں بند کر کے اس سسٹم کے لیے کود پڑنا ہرگز دانش مندی نہیں اور الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر حکومت اس معاملے میں بے صبری کا مظاہرہ کرے بھی تو وہ پھر بھی احتیاط کا دامن نہ چھوڑے‘ جبکہ حکومت اس معاملے میں اپنی دلچسپی کو مسلط کرتی ہوئی محسوس نہ ہو۔ حکومت کی یہ تجویز انتخابی اصلاحات میں سے ایک نکتہ ہے‘ اس ایک نکتے پر اڑ جانا اور انتخابی شفافیت‘ آزادی اور انصاف کے دیگر تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا اصولی طور پر درست نہیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement