توانائی کے نرخ اور مہنگائی
ایک خبر کے مطابق یکم نومبر سے گھریلو صارفین کے لیے گیس مزید مہنگی کرنے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں اور مختلف سلیبز کے گیس بلوں میں ساڑھے پانچ سو روپے تا نو ہزار روپے سے زائد تک کا اضافہ ممکن ہے۔ اس سے چند روز پہلے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا تھا جبکہ حال ہی میں بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی بڑھائی گئی تھی اور نئے سلیبز بنانے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ توانائی کے تینوں بڑے ذرائع کے نرخوں میں اضافہ عام آدمی کو براہ راست اور بالواسطہ‘ دونوں حوالوں سے متاثر کرتا ہے۔ براہ راست بجلی‘ گیس کے بلوں اور پٹرولیم وغیرہ کی خریداری کے تناظر میں جبکہ بالواسطہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور ان اشیا کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں جن کی تیاری یا ترسیل کے کسی بھی مرحلے میں توانائی کے ان ذرائع کا استعمال ہوتا ہے۔
یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ توانائی کی قیمت میں اضافہ مختلف اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافے کا موجب بنتا ہے اور یہ اشیا تیار کرنیوالا اس اضافے کو اپنی پروڈکٹ کی قیمت بڑھا کر آگے منتقل کر دیتا ہے اور صارف کو یہ اشیا مہنگی خریدنا پڑتی ہے۔ یوں توانائی کے نرخ بار بار بڑھنا مہنگائی کی شدت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے؛ چنانچہ حکومت کو توانائی کے ذرائع کے نرخ کم کرنے کا قصد کرنا چاہیے تاکہ روزافزوں مہنگائی کا گراف نیچے لایا جا سکے۔