اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم کا خطاب

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے وزیر اعظم عمران خان کا یہ ورچوئل خطاب بھی اس اہم عالمی فورم پر پہلے دونوں خطابات کی طرح بھرپور‘ مدلل اور پاکستان کے قومی موقف کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے افغانستان‘ اسلاموفوبیا‘ مسئلہ کشمیر‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز‘ کووڈ اور ترقی پذیر ممالک کی کرپٹ اشرافیہ کی لوٹ مار کے اثرات پر گفتگو کی۔ افغانستان کے حوالے سے انہوں نے افغان جنگ اور عدم استحکام کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ غیرمستحکم اور افراتفری کا شکار افغانستان عالمی دہشتگردی کا مرکز بن سکتا ہے‘ لہٰذا آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ افغانستان کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔ اسلاموفوبیا کے حوالے سے وزیر اعظم نے بھارت کا بطور خاص ذکر کیا‘ جہاں اسلاموفوبیا کی بہت ہی خطرناک صورت پروان چڑھ رہی ہے۔ اگرچہ اسلاموفوبیا کا مسئلہ مغربی ممالک میں بھی بڑی شدت سے پایا جاتا ہے مگر بھارت اور مغربی ممالک میں اس معاملے میں ایک فرق یہ ہے کہ مغربی ممالک کی حکومتیں اور سماج کا ایک قابل لحاظ حصہ مذہبی بنیاد وں پر تشدد کے خلاف آواز اٹھاتا ہے؛ تاہم بھارت میں یہ نفرت حکومتی اختیارات کی چھتری تلے پھل پھول رہی ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت میں اسلاموفوبیا یا مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں پر جاں لیوا تشدد کے واقعات تقریباً معمول بن چکے ہیں‘ لیکن ایسے واقعات کے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ گزشتہ برس فروری میں دہلی میں مسلم آبادی کو منظم حملوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ دہلی پولیس واضح طور پر حملہ آوروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ 2020ء کے دہلی فسادات کے خلاف اپیل کی سماعت کرنے والے دو رکنی بینچ میں شامل جسٹس مرلی دھر نے ان فسادات میں پولیس کی جانبداری اور بی جے پی سرغنوں کی اعانت کے حقائق کو نوٹ کیا تو بھارت کے محکمہ انصاف نے ان کا تبادلہ دوسرے صوبے میں کر دیا۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھارتی حکومت اور سرکاری اداروں کی ملی بھگت کی وجہ سے بھارت میں اسلاموفوبیا کا مسئلہ مغربی ممالک سے مختلف نوعیت کا اور زیادہ تشویشناک ہے اور اس جانب عالمی توجہ مبذول کروانا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اسلاموفوبیا اگرچہ کوئی نیا مظہر نہیں تاہم اقوام متحدہ کے فورم پر اس اہم معاملے کو زیر بحث لانے میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا اہم کردار ہے‘ اس معاملے میں دوسری اہم شخصیت ترکی کے صدر رجب طیب اردوان ہیں۔ اگرچہ اب اور کئی عالمی رہنما بھی اس مسئلے کو اپنی تقاریر میں زیر بحث لاتے ہیں۔ حقیقت میں نفرت کی بنیاد پر موجود اس سلگتے ہوئے مسئلے کی حقیقتوں کے اظہار سے گریز نامناسب رویہ ہے۔ اس مسئلے پر کھل پر بحث ہونی چاہیے تاکہ دنیا کو مسلم معاشروں کی تشویش سے آگاہی ہو۔ ماضی قریب میں دہشتگردی کو جواز بناکر خاص طور پر مغربی معاشروں میں مسلم آبادی کو جس طرح الگ تھلگ کرنے کا رجحان پیدا ہوا وہ سماجی اعتبار سے مسلم آبادی کیلئے شدید ناانصافی پر مبنی ہے۔ کئی ممالک نے ایسے قوانین بھی بنا لیے جن کا مقصد واضح طور پر مسلم آبادی کے اعتقادات کو نشانہ بنانا ہے۔ اس صورتحال میں اُن ممالک اور معاشروں میں رہنے والی مسلم آبادی کس قسم کے شدید دباؤ اور عدم تحفظ کا شکار ہوگی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان اقدامات نے اسلاموفوبیا کی سوچ کو متحرک کیا اور انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند ذہنوں کو مسلم آبادی کو نشانہ بنانے کا موقع دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس  مسئلے کو زیر بحث لانے کا بہترین فورم ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر ہے۔

انہوں نے کشمیر میں درپیش صورتحال‘ بھارت کی ریاستی دہشتگردی‘ مظلوم کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا بھی تفصیل سے ذکر کیا۔ اسی فورم پر دو برس پہلے جب وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار خطاب کیا تھا تو ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین کی متعلقہ دفعات کو ختم کرنے کا واقعہ اور مظلوم کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے اضافی سختیوں کا سلسلہ بالکل تازہ تھا۔ ان کے اس بھرپور خطاب کی گونج بہت دور تک سنی گئی‘ دنیا بھر میں اس کا چرچا ہوا‘ پاکستانی اور کشمیری عوام نے خاص طور پر اس خطاب کو سراہا‘ مگر آج دو برس بعد جب ہم اس تقریر کے اہم نکات پر غور کرتے ہیں‘ جن میں اقوام متحدہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے عملی اقدام پر اکسایا گیا تھا‘ تو یہ جان کر مایوسی ہوتی ہے کہ اس عرصے میں اس معتبر عالمی ادارے کی جانب سے حقیقی معنوں میں ایک بھی مؤثر قدم نہیں اٹھایا جا سکا‘ اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر بھارتی حکومت کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور کشمیری عوام کے خلاف اقدامات میں مزید شدت آ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ پُراسرار خاموشی یا غیر فعالیت صرف باعث تشویش ہی نہیں بلکہ فکرمندی کا سبب بھی ہے کہ جن اداروں کی ذمہ داری عالمی توازن قائم کرنا ہے انہیں دنیا کے امن اور مسائل سے کس قدر دلچسپی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن دنیا میں پائیدار امن‘ ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ خواہ اسے مارکیٹ اکانومی کے نقطہ نظر سے دیکھ لیں یا عسکری تناظر میں‘ جنوبی ایشیا میں امن کا امکان ہر لحاظ سے بنیادی طور پر اہم ہے‘ مگر امن کا یہ امکان مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement