اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی سلامتی کمیٹی کا اہم معاملات پر غور

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پُرامن‘ مستحکم اور خود مختار افغانستان کیلئے پاکستان کے عزم کو دہراتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے مدد کرے اور افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ تعمیری سیاسی اور معاشی بات چیت کی اہمیت کا احساس کرے۔ افغانستان کی صورتحال‘ جو پہلے ہی خاصی گمبھیر تھی‘ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے عالمی برادری کا تعاون اور توجہ اس جانب سے ہٹ جانے کے بعد غیر معمولی حد تک پیچیدہ  اور گمبھیر ہو چکی ہے۔ دو عشرے تک امریکی قبضے کے دوران اس ملک میں قومی تعمیر پر کوئی کام نہیں ہو سکا‘ نہ ادارے مضبوط بنائے جا سکے اور نہ ہی بنیاد ی اور لازمی سہولیات کا سسٹم قائم ہو سکا؛ چنانچہ غیر ملکی انخلا کے بعد یہ سارا نظام ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گیا اور اب وہاں ایک غیرمعمولی بحران تیار کھڑا ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات اور بنیادی سہولیات دستیاب نہیں‘ بازاروں میں خوراک کی قلت ہے‘ ایندھن کا بحران ہے‘ اور سب سے بڑھ کر عوام اور حکومت کو نقد رقوم کی قلت کا سامنا ہے۔ دسیوں لاکھ افغان ان حالات میں شدید معاشی دباؤ اور خوراک کی قلت و عدم دستیابی کے مسائل کا سامنا کر نے کے لیے اکیلے رہ گئے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے سروے کے مطابق ہر دس میں سے نو افغان کنبوں کے پاس کھانے کو کافی کچھ نہیں جبکہ ہر تین میں سے ایک افغان شہری کو شدید بھوک کا سامنا ہے۔ اس بھوک‘ خوراک کے بحران اور ہسپتالوں میں سہولیات کی عدم دستیابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگست کے دوسرے ہفتے میں افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی اداروں کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی امداد اور افغان اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر لوازمات کے لیے دی جانے والی رقوم یک لخت بند کر دی گئیں۔

ورلڈ بینک کے تحت چلنے والے ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ سے افغان سول ملازمین‘ ہسپتالوں کے ڈاکٹرز‘ نرسوں اور دوسرے عملے‘ اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی تھیں‘ لیکن اس فنڈ کی یکایک بندش سے صرف افغانستان کا صحت اور تعلیم کا شعبہ ہی منہدم نہیں ہوا بلکہ ان شعبوں کے ساتھ منسلک لاکھوں افراد کی خانگی معیشت کا ڈھانچہ بھی بیٹھ گیا ہے؛ چنانچہ صحت کا نظام جو ڈاکٹروں کی تنخواہوں کے علاہ ادویات اور دیگر سہولیات کے لیے بھی عالمی اور مغربی اداروں کی امداد پر منحصر تھا‘ اب تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ موسم سرما کے آغاز سے قبل خوراک‘ صحت کی سہولیات اور ایندھن کے بحران سے نمٹنا افغانستان کو خوفناک انسانی المیے سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ افغانستان میں ورلڈ بینک کی فنڈنگ سے چلنے والے صحت اور تعلیم کے ادارے انسانی ہمدردی اور مدد کے مقصد سے قائم کیے گئے تھے اور اصولی طور پر ان اداروں کے مشن کا افغان سرزمین سے امریکی انخلا سے کوئی تعلق نہیں بنتا‘ مگر امریکی افواج کے نکلتے کے بعد افغان سول اداروں کی مدد کا سلسلہ یکسر بند کرکے عالمی اداروں نے جو بحران افغانستان میں پیدا کیا ہے‘ اس کی شدت اور اثرات دور رس اور تشویشناک ہیں۔ افغانستان میں موسم سرما شدید اور بے رحم ہوتا ہے مگر  امریکی انخلا کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے اداروں کی مدد سے بنائے گئے افغان صحت کے نظام کے بے آسرا رہ جانے کے غیرمعمولی منفی اثرات ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ صحت‘ تعلیم اور خوراک کی فراہمی کے مشن سے قائم ہونے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان میں جائز اور منصفانہ کردار ادا کریں۔ اس کام میں وہ جتنی تاخیر کریں گے افغانستان میں انسانی المیہ اتنی ہی تیزی سے شدت اختیار کرے گا۔ موسم سرما کے آغاز میں اگر صحت اور خوراک کے بحران سے نہ نمٹا گیا تو اندیشہ ہے کہ کم خوراکی اور بیماریوں سے بچوں اور کمزور افراد میں بیماریوں اور ہلاکتوں کی شرح تیزی سے بڑھے گی۔

افغانستان میں شدید انسانی بحران سے بچنے کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام‘ عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ بینک کو فوری طور پر بروئے کار آنا چاہیے۔ دنیا میں افغانستان کے انسانی بحران کو نمایاں کرنا اور اس بحران میں مغربی ممالک اور عالمی اداروں کے کردار کو واضح کرنا چاہیے۔ افغانستان میں صورتحال جس سمت بڑھ رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ خوراک اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی روک کر اور اس سلسلے میں کوتاہی برت کر افغانستان کو ایک نئے بحران کی نذر کیا جارہا ہے‘ مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم جس افغانستان کی بات کر رہے ہیں وہ اس وقت ایسے عالمی دہشت گرد گروہوں کا ٹھکانا بن رہا ہے جو طالبان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ دہشت گردوں کے اس عالمی نیٹ ورک کے خلاف طالبان ہی دنیا کے لیے ڈھال بن سکتے ہیں‘ اور یہی صورت طالبان کو ان کی اس کمٹمنٹ پر عمل کے قابل بنا سکتی ہے کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اگر مغرب اپنی ہزیمت کا بدلا لینے کے لیے طالبان اور افغانستان کو دنیا سے کاٹ کر الگ کرنے اور ان کے ساتھ ہر قسم کے تعمیری سیاسی اور معاشی مکالمے کے امکان کو مسترد کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے تو ڈر ہے کہ افغانستان کی سرزمین ایک بار پھر عالمی دہشت گرد گروہوں کی آماجگاہ بن کر ابھرے گی‘ مگر اس بار اس کا قصوروار طالبان کو نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ اس بار اس کی ذمہ داری مغربی حکومتوں اور ان کے طرف دار عالمی اداروں پر عائد ہو گی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement