اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورہ

امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کے دورۂ پاکستان کے مقاصد اور اہداف اس دو روزہ دورے سے پہلے ہی واضح ہو چکے تھے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ‘ جو بھارت سے ہوتی ہوئی پاکستان آئیں‘ نے جمعرات کے روز ممبئی میں میڈیا کے ساتھ ملاقات میں دورہ پاکستان کے مقاصد اور پاکستان کے حوالے سے امریکی نقطہ نظر کو جس طرح واضح کیا‘ اسے سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ وسیع تر تعلقات بنانے کی جانب نہیں دیکھ رہا اور وہ ایک محدود اور خاص مقصد سے پاکستان جا رہی ہیں اور وہ مقصد ہے افغانستان کی صورتحال پہ گفتگو۔ ادھر اسلام آباد میں بھی انہوں نے اس بات کو قدرے مختلف الفاظ میں مگر ملتے جلتے مفہوم میں یوں بیان کیا کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ اگرچہ دوطرفہ تعلقات پر بھی بات چیت کی مگر اس دورے کا مقصد اسی معاملے پر بات چیت کرنا تھا کہ افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلی کے زیر اثر بدلتے ہوئے حالات کو ہم کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورے سے پہلے بھی اگرچہ اس حوالے سے شبہات نہیں تھے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ معاملات کو افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں طے کرتا ہے‘ تاہم اس دورے میں یہ بات زیادہ ابھر کر سامنے آئی ۔ بے شک دو ممالک کے تعلقات کی بنیاد میں کہیں نہ کہیں مفادات ہی ہوتے ہیں؛ چنانچہ امریکہ پاکستان کے ساتھ خارجہ تعلقات کو اگر جیوپولیٹیکل تناظر خاص طور پر افغانستان کے حوالے سے دیکھتا ہے تو اس سے خطے میں پاکستان کی مؤثر حیثیت اجاگر ہوتی ہے۔

دونوں ممالک میں قریب سات دہائی پر محیط تعلقات‘ جن میں ہر قسم کے دور آئے‘ سرد‘ گرم‘ شیریں‘ کسیلے‘ کو اصولی طور پر اب تک اتنا اعتماد حاصل ہو جانا چاہیے تھاکہ باہمی تعلقات کی نوعیت محض وقتی مفاد پرستی یا ضرورت کی دوستی کے بجائے پائیدار ہوتی‘ مگر پچھلی کم از کم چار دہائیوں نے یہ ثابت کر دیاکہ امریکہ پاکستان کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے کے قابل نہیں۔ اس عرصے میں دنیا کے اس حصے میں جو بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں‘ پاکستان ان میں اہم کردار کے طور متحرک رہا‘ مگر اس دورانیے میں جب تک تو امریکی منصوبے زیر تکمیل رہے اور پاکستان خطے میں اپنی اہم جغرافیائی اور سیاسی حیثیت کے موجب امریکہ کیلئے کسی اہمیت کا حامل تھا تو پاکستان کے معاملے میں امریکی تاثرات‘ رویہ اور بیانیہ الگ تھا اور ان منصوبوں کے پورا ہو جانے کے بعد کے دور میں امریکی تاثرات‘ رویے اور بیانیے سراسر تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں ایک بار پھر یہی صورت ہے اور یہ 80ء کی دہائی کے اواخر میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد کے دور میں پاکستان کے بارے میں امریکی رویے سے قطعی مختلف نہیں۔ پاکستان میں امریکی رویے کی اس ڈائنامکس کو باور کرنے اور اس سے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اصولی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مفاد پورا ہونے کے بعد آنکھیں ماتھے پر رکھ لی جائیں‘ مگر ہمیں یہ مان کر چلنا ہوگا کہ ہم ایک مثالی دنیا میں نہیں رہتے‘ لہٰذا ہمیں تصویر کا دوسرا رخ اور دوسرے امکانات کو بھی مدنظر رکھ کر چلنا چاہیے۔ مغرب کے معاملے میں ہمارے جذباتی رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم امکان کے دوسرے پہلو کو سامنے نہیں رکھتے‘ اسی لئے جب کوئی ہمارے ساتھ اپنا رویہ بدلتا ہے تو یہ صورتحال ہمارے لیے نفسیاتی دباؤ کا سبب بنتی ہے۔ بہرحال امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورے میں یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ ’’براڈ بیسڈ ریلیشن شپ‘‘ کیلئے نہیں سوچ رہا‘ اور تعلقات کا مرکزی نکتہ افغانستان کی صورتحال رہے گی‘ مگر امریکہ افغانستان کے مستقبل کو کس طرح دیکھ رہا ہے‘ یہ بذات خود ایک بڑا سوال ہے اور خود امریکی اس معاملے میں واضح نہیں۔ نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کے اس خطے کے دورے سے بھی ایسا کچھ واضح نہیں ہو پایا کہ امریکہ افغانستان میں کیا کرنا چاہتا ہے نیز افغانستان کی تعمیر نو‘ بحالی یا استحکام میں وہ کوئی مدد کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔ صرف یہی سنائی دے رہا ہے کہ کوئی ملک بشمول پاکستان طالبان کی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے جب تک دنیا کے دیگر ممالک انہیں تسلیم نہیں کرتے۔

بظاہر اس کا مقصد طالبان پر دباؤ بڑھانا ہے کہ انہوں نے جو کمٹمنٹ کی تھی اسے پورا کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ طالبان کے کیے گئے وعدے ہنوز تشنہ تکمیل ہیں؛ چنانچہ بچیوں کی تعلیم‘ روزگار کے مواقع اور نسلی و لسانی گروہوں کو شامل کرکے ایک جامع حکومت کا قیام یقینی بنانے کیلئے طالبان کے ساتھ رابطہ کاری اور افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ تعاون کی اشد ضرورت تھی۔ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا مقصد ہی یہ تھاکہ جب تک مستقل حکومت قائم نہیں ہوتی دنیا کے ساتھ معاملات کرنے میں سہولت پیدا کی جائے مگر اس قریب ڈیڑھ ماہ کے دوران ایسی کوئی قابل ذکر پیشرفت سامنے نہیں آئی‘ جس میں مغربی ممالک نے طالبان کے ساتھ ہم آہنگی اور رابطہ کاری کی کوئی کوشش کی ہو۔ اس خلا میں افغانستان میں ضروریات زندگی کا جو بحران شدت اختیار کرتا گیا اس کی جانب کسی کی توجہ نہیں‘ نہ ہی داعش کے بڑھتے ہوئے خطرات کو کوئی دیکھ اور سمجھ رہا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ امریکہ کے اس رویے نے افغانستان اور اس خطے کے لیے جو مسائل پیدا کیے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان کی ہمسائیگی کے ناتے پاکستان خود ان حالات کا ایک متاثرہ فریق ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement