اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور مشکلات

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین چار اکتوبر سے جاری تکنیکی سطح کا دور مکمل ہو چکا ہے اور اگلے مرحلے میں پالیسی لیول کے مذاکرات کے لیے وزیر خزانہ رواں ہفتے امریکہ جائیں گے۔ تکنیکی سطح کے ورچوئل مذاکرات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان میں آئی ایم ایف کے تحفظات واضح نظر آتے ہیں‘ خاص طور پر محصولات کی کارکردگی پر جو سوال اٹھائے گئے ہیں اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ہمارے ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کی ہدف سے زائد وصولیوں کو ایک کارنامہ ماننے سے انکار کیا ہے‘ وہ حیران کن ہے؛ چنانچہ مذاکرات کا اگلا دور محصولات اور توانائی کے حوالے سے اہم ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اس حوالے سے کیا فیصلے ہوتے ہیں۔ تکنیکی سطح کے مذاکرات سے یہ بھی واضح ہے کہ آئی ایم ایف کا زور سیلز ٹیکس‘ انکم اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی اُنہی شرائط پر ہے جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ حکومت نے رواں سال کے شروع میں ان پر عمل درآمد کا یقین دلایا تھا‘ مگر اس فارمولے کی حقیقت جب واضح ہوئی اور اس کے مضمرات کا احساس ہوا تو حکومت کو اس کمٹمنٹ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ مئی کے آخر میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس میں یہ واضح کیا تھا کہ انکم ٹیکس کی آئی ایم ایف کی تجویز قبول نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی مزید ٹیکس لگانے اور مراعات ختم کرنے کی شرائط کے بغیر ریونیو بڑھایا جائے گا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین‘ جنہیں اُس وقت حفیظ شیخ کی جگہ یہ عہدہ سنبھالے قریب ایک ماہ ہی ہوا تھا‘ کی بجٹ سے قبل اس اہم پریس کانفرنس کو بڑی توجہ سے سنا گیا اور اسے آئی ایم ایف کی شرائط سے آزاد معاشی پالیسی وضع کرنے کی جانب پیش قدمی پر محمول کیا گیا‘ مگر ہماری وزارت خزانہ کی اس حکمت عملی کو عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے منظوری ملنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ محصولات کی جس اضافی آمدنی پر چند روز پہلے وزیر اعظم قوم کو اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو مبارک باد دے رہے تھے اور ہدف سے 38 فیصد زائد آمدنی کو ایک کارنامہ قرار دے رہے تھے‘ آئی ایم ایف نے درآمدات کی مد سے اضافی وصولیوں کا نتیجہ قرار دے کر اس کارنامے کو ماننے ہی سے انکار کر دیا ہے۔

تکنیکی سطح کے مذاکرات کے اس تناظر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وزیر خزانہ کی سطح پر جو براہ راست مذاکرات اسی ہفتے واشنگٹن میں متوقع ہیں‘ وہ کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ امر مخفی نہیں کہ آئی ایم ایف اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر نامکمل اہداف کا دباؤ ڈالے گا‘ باوجود اس کے کہ توانائی سمیت کئی شعبوں میں ٹیکس بڑھانے اور رعایت کم کرنے سے ان اشیا کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی جانب سے عوام پر مہنگائی کے ناقابل بیان بوجھ کا محرک عالمی مالیاتی ادارے کی پالیسیوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی حکومتی خواہش ہی تھی۔ اشیائے خورونوش سے لے کر توانائی تک‘ تقریباً سبھی شعبوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور اس کا نتیجہ مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔ اشیائے خورونوش کی مخصوص آئٹمز جو یوٹیلٹی سٹورز پر قدرے سستے داموں دستیاب ہوا کرتی تھیں‘ ان فوڈ آئٹمز پر بھی سبسڈی کم بلکہ ایک طرح سے ختم ہی کر دی گئی‘ جس سے پچھلے چند ماہ کے دوران عام بازار ہی میں نہیں یوٹیلٹی سٹورز پر بھی خوراک کی اشیا کے نرخوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس طرح آئی ایم ایف کی ہدایات ملک میں روپے کی قدر میں کمی اور نتیجتاً مہنگائی میں اضافے کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔ توانائی کی قیمتیں بلامبالغہ ملکی تاریخ کی بلند تر ین سطح پر ہیں اور حکمران یہ دعویٰ کرکے کہ ’یہ اب بھی کم ہیں‘ مزید اضافے کا جواز پیدا کر رہے ہیں جبکہ روپے کی گراوٹ کے نتیجے میں اشیائے خورونوش عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں‘ خاص طور پر وہ اشیا جن میں کسی قدر درآمدی میٹریل استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کھانا پکانے کا تیل یا بناسپتی گھی۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے زیر اثر ملکی معیشت کا جو حال ہو چکا ہے‘ اب اس میں مزید بوجھ برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں؛ چنانچہ وزیر خزانہ اور ان کی فاضل ٹیم جب واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے افسران کا سامنا کرے تو انہیں اس یقین کے ساتھ جانا چاہیے کہ انہوں نے کچھ بھی چھپا کر نہیں رکھا اور یہ الزام کہ پاکستان نے رواں سال عالمی ادارے کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی‘ اس میں میں کوئی صداقت نہیں۔

ہمارے معاشی ذمہ داروں کو اس کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ وقتی طور پر سخت پالیسیوں پر عمل درآمد پر رضا مندی ظاہر کر دینا اور بعد میں پیچھے ہٹنا بھی دانشمندانہ اقدام نہیں؛ چنانچہ مذاکرات کے اس بظاہر مشکل ترین دور میں پاکستانی سائیڈ کو قومی اور ملکی مفاد کے ان پہلوؤں کو سامنے رکھ کر چلنا ہو گا۔ یقیناً یہ مشکل صورتحال ہے اور اس کا اندازہ آئی ایم ایف کے افسروں کو بھی ہے جن کے ریمارکس یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی ان مشکلات کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنے پر آمادہ ہیں‘ مگر ہمارے ماہرین کے سامنے یہ سادہ اور دوٹوک حقیقت ہونی چاہیے کہ جہاں تک مہنگائی کی بات ہے تو ملک کے عوام میں مزید دباؤ برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ اس صورتحال میں عوام پر مہنگائی‘ خواہ اس کی جو بھی صورت ہو‘ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement