اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مستحکم افغانستان عالمی امن کیلئے ناگزیر

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں یہ بات دہرائی ہے کہ دنیا کو طالبان کے ساتھ روابط پیدا کرنے چاہئیں بصورت دیگر طالبان کے اندر شدت پسند ذہن 20 برس پہلے والی پوزیشن پر جا سکتے ہیں اور یہ صورتحال داعش جیسے گروہوں کیلئے بڑی سہولت پیدا کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھاکہ افغانستان میں مستحکم حکومت ہی داعش کے خطرے سے بچاؤ کی واحد صورت ہے‘ یہی آخری آپشن ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں استحکام عالمی امن کے لیے بنیادی طور پر اہم ہے۔ گزشتہ دو‘ تین عشروں کے دوران افغانستان سے اٹھنے والے خطرات نے دنیا کو جس طرح متاثر کیا‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسی صورتحال نے امریکہ کو افغانستان میں طویل مدتی مداخلت کا مو قع فراہم کیا۔ مغرب کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ افغانستان عالمی امن کے لیے خطرہ ہے اور اس خطرے کا تدارک کیا جانا ضروری ہے۔ دو عشرے اسی ’’تدارک‘‘ کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی رہی۔ بہرحال اس دور کا بھی اختتام ہونا تھا‘ سو ہوا اور بالآخر امریکہ کو افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنے انخلا کی راہ ہموار کرنا پڑی۔ یہاں سے افغانستان کی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ کابل میں طالبان کا داخلہ‘ امن قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش‘ طاقت کے استعمال سے حتی الوسع گریز‘ یہ نئے افغانستان کے نمایاں فیچرز ہیں جن کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ یہ رویہ افغانستان میں پائیدار امن کے امکان کی پنیری ہے‘ جس کی نگہداشت کی جائے تو افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ اگر اس جانب بے مروتی کا مظاہرہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ بہتری کے امکانات دم توڑ دیں گے۔ ہم جس افغانستان کی بات کر رہے ہیں‘ عالمی دہشتگردی کے خطرات کے حوالے سے یہ ماضی سے بظاہر مختلف نظر آتا ہے۔ فی الحقیقت افغان سرزمین پر اس وقت عالمی دہشتگردی کا ایک ایسا عفریت پل رہا ہے جس کے وجود کو نظر انداز کرنے کے خوفناک نتائج ہوں گے؛ چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’طالبان آخری آپشن ہیں‘ تو اس نکتے کو افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں داعش کا وجود اور اس عالمی دہشتگرد گروہ کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں علاقائی اور عالمی ممالک‘ سبھی کیلئے یکساں پریشانی کا موجب ہیں۔ ہو سکتا ہے امریکہ یا اس کے مغربی اتحادی ابھی اس خطرے کو نظر انداز کر رہے ہوں‘ جیسا کہ وہ عراق اور شام میں کرتے رہے ہیں‘ مگر اس کے نتائج علاقائی ممالک کے لیے بلاشبہ تشویش کا سبب ہیں اور اس جانب سے غافل نہیں رہا جا سکتا۔

افغانستان میں پلنے والے اس عالمی دہشتگردی کے خطرے کے تدارک کا یہی موقع  ہے اور یہ اسی صورت ہو سکتا ہے اگر افغانستان میں ایک پائیدار اور مستحکم حکومت قائم ہو؛ چنانچہ دنیا کے پاس اس وقت بہترین آپشن یہی ہے کہ طالبان کے ساتھ معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے تلخ یادداشتوں سے نکلے اور درپیش حالات کا ادراک کرنے کی کوشش کرے۔ اس موقع پر جب نئے افغانستان کو استحکام کی راہ پر چلنے کے لیے تعاون کی ضرورت ہے دنیا جس طرح اس عالمی سطح کے مسئلے سے بیگانہ ہوئی‘ یہ حیران کن ہے۔ امریکہ افغانستان کی جنگ پر ہزاروں ارب ڈالر خرچ کر دیے لیکن وہ افغانستان کے نئے دور میں استحکام کی غرض سے تعاون سے انکاری ہو گیا۔ افغانستان کی عبوری حکومت جس کے قیام کا بنیادی مقصد ہی دنیا کے ساتھ رابطہ کاری کے عمل میں سہولت فراہم کرنا تھا‘ مگر موجودہ حالات میں ناکارہ ہو کر رہ گئی۔ افغانستان کے جو مالیاتی وسائل مغرب کی دسترس میں تھے وہ روک لیے گئے‘ امدادی اداروں کے عطیات بھی معطل ہو گئے نتیجتاً افغانستان میں ادویات اور خوراک کا جو بحران پیدا ہوا وہ اب شدید صورت اختیار کر گیا ہے۔ ایسی صورتحال‘ کہیں بھی ہو خلفشار پیدا کرتی ہے اور ایسا ماحول انتہا پسند گروہوں کے لیے زرخیز ثابت ہوتا ہے۔ افغانستان اس وقت اسی خطرے سے دوچار ہے۔ وہ عالمی دہشتگرد گروہ جو کچھ عرصہ پہلے تک زیر زمین دبا ایک بیج تھا اب نمود کے مراحل میں ہے۔ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اس کا احساس دلاتے ہیں۔ اگر معاملات اسی نہج پر چلتے رہے تو افغانستان میں عالمی دہشتگرد گروہوں کی تنظیم اور کارروائیاں برسات کے بعد خود رو نباتات کی طرح نمو پائیں گی۔

دنیا کو اس خطرے سے بچانے کیلئے طالبان کو امور جہانبانی میں کھپانے اور انہیں یہ احساس دلانے کی ضرورت تھی کہ اب وہ ایک مزاحمتی گروہ نہیں ایک ملک کی ذمہ داریاں ان پر ہیں اور اس غرض سے افغان عوام اور دنیا ان کی جانب دیکھ رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے جو وعدے کئے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے‘ اور انہیں اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ پھر بھی افغان عوام کی ضروریات سے پہلوتہی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ علاقائی ممالک بھی افغانستان کے علاقائی حل کے لیے جو خواب بُن رہے تھے وہ بھی کوئی نتیجہ نہیں دکھا سکے۔ اس صورتحال میں جو خطرہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے وہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ افغان عوام کیلئے‘ علاقائی ممالک کیلئے اور دنیا کیلئے یہی بہتر ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement