اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سول ملٹری لیڈرشپ میں مثالی تعلقات

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا تھا کہ سول ملٹری لیڈرشپ میں مثالی تعلقات ہیں۔بقول اُن کے نہ ہی ایوانِ وزیر اعظم کوئی ایسا کام کرے گا جس سے افواج کی عزت میں فرق آئے اور نہ ہی فوج کی جانب سے ایسا کیا جائے گا۔ وزیر اطلاعات کا یہ بیان ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن کے حوالے سے پائی جانے والی قیاس آرائیوں کے بعد سامنے آیا۔ یہ معاملہ گزشتہ روز کابینہ کی ہفتہ وار میٹنگ میں بھی زیرِ بحث آیا۔حکومت اور مسلح افواج کے مابین تعلقات کی نوعیت کے حوالے سے وزیر اطلاعات کی یہ باتیں بڑی اطمینان بخش اور حوصلہ افزا ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کی مثالی صورت ملکی ترقی اور توازن کا بنیادی تقاضا ہے اور وطن عزیز کو اس وقت اس توازن کی ناگزیر ضرورت ہے۔

اگرچہ یہ ضرورت ہمیشہ سے موجود رہی ہے کیونکہ حکومت اور مسلح افواج میں بہترین کوآرڈی نیشن داخلی اور بیرونی سطح پر اطمینان بخش صورتحال کے لیے ضروری ہے اور کسی ریاست کو اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرنے کیلئے لازمی ہے کہ وہ سول ملٹری تعلقات کے خوش آئند ماحول سے آراستہ ہو۔جب اور جہاں ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف یہ کہ داخلی بے چینی اور فکری انتشار رجحان پاتا ہے وہیں ریاست کا بیرونی تاثر بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ وطن عزیز کی تاریخ میں اس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں اور یہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کا توازن بگڑنے کے نتائج کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ اس کا نقصان صرف یہی نہیں کہ جمہوری عمل متاثر ہوتا رہا بلکہ مملکت کے تاثر پر بھی اس کا بڑا اثر پڑا مگر اب جبکہ ہم قومی زندگی کی آٹھویں دہائی میں داخل ہو چکے ہیں توہماری یہ قومی عمر بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم ریاستی نظام اور معاملات میں اس درجہ سنجیدگی کو پہنچ جائیں کہ ہم پر غلطیاں دہرانے کا الزام عائد نہ کیا جائے۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں‘ اور قومی اداروں میں بھی یہ سوچ پنپ رہی اور ایسا احساس پیدا ہو رہا ہے کہ قومی معاملات میں توازن کی سطح کو برقرار رکھنا قومی مفاد میں کس قدر اہم ہے۔ اس سلسلے میں کسی مہم جوئی کی نہ گنجائش ہے نہ ہی یہ قومی مفاد میں ہے۔ہم دنیا کے جس حصے میں ہیں اس کی حساسیت اپنی جگہ پرہے جو ہمیں کسی بے احتیاطی کی اجازت نہیں دیتی۔ پاکستان کے روشن مستقبل کی تعمیر کے مقاصد کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم قومی ہم آہنگی کے جذبے کے ساتھ یہ سفر جاری رکھیں۔ فکری انتشار یا ٹکراؤ کی یہاں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اس سلسلے میں ماضی میں جو تجربات کئے جاچکے ہیں ان سے نہ سیکھنا ناقابلِ تلافی غلطی ہو گی؛ چنانچہ قوم اور ریاست کے بہترین مستقبل کے لیے اور علاقائی اور عالمی سطح پر مملکت پاکستان کو اس کا درست مقام دلانے کے مقاصد کے ساتھ اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور قومی ادارے باہم مثالی تعلقات کی نئی مثالیں قائم کریں۔

اداروں کے بغیر حکومتیں ناکام ہیں کیونکہ ریاست کی قوتِ محرکہ اور قوتِ عاملہ یہی ادارے ہیں۔ حکومت عوام کے دیے ہوئے مینڈیٹ کے تحت اداروں کے ذریعے مملکت کے نظام کو چلانے کی ذمہ دار ہے۔ یہ ذمہ داری کما حقہٗ اسی صورت ادا ہو سکتی ہے جب ریاست اور اداروں میں ہم آہنگی ہو؛چنانچہ سنجیدہ اور دانشمند سیاسی قیادت کبھی بھی توازن یا تعلقات کی بہترین نوعیت کو متاثر نہیں ہونے دیتی۔ اداروں کو مضبوط بنایا جاتا ہے اور اپنے متعین دائر ۂ کار میں ادارے اپنے راستے پر چلتے ہیں اور حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔اس ضمن میں اگر ہم تاریخ سے کچھ سیکھ سکتے ہیں تو وہ یہ کہ ٹکراؤ کے بجائے ہم آہنگی کے ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ ہم آہنگی اور باہمی تعلقات کی خوشگوار نوعیت پہلے تو ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہی نہیں ہونے دیتی اور اگر بالفرض کسی معاملے میں اختلافِ رائے پیدا ہو بھی جائے تو اس صورتحال کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا جاتا ہے۔ اختلافِ رائے کا پیدا ہونا فطری ہے مگر اختلافِ رائے کو حل کرنے میں ناکامی قیادت کی صلاحیتوں کے بحران کی علامت بن جاتی ہے۔ ماضی میں اسی ضد اور اَناؤں کے ٹکراؤ نے ملک و قوم کے لیے جو نتائج پیدا کئے ان کو یاد کئے بغیر تاریخ پاکستان کا طالب علم آگے نہیں بڑھتا۔ مگر اب وقت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ قواعدو ضوابط پر شخصی اَنا کو ترجیح دینا اب نہیں چل سکتا۔

خوش قسمتی سے سیاسی قیادت بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے۔ وزیر اعظم کی قیادت میں کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس کے لب لباب سے یہ تصور مترشح ہے۔موجودہ حکومت پہلے بھی بڑی صراحت کے ساتھ یہ تاثر دیتی آئی ہے کہ حکومت اور مسلح افواج ایک پیج پر ہیں‘ اب ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے پر جو پیش رفت ہوئی ہے اس سے یہ امر زیادہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومت اور مسلح افواج کے باہمی اعتماد اور احترام کے رشتے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی جذبے کے ساتھ اداروں کو ساتھ لے کر چلنا اور توازن قائم رکھنا ہی اچھی جمہوری حکومت کی دلیل ہے اور یہ جذبہ موجود رہے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے سفر میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی اور علاقائی اور عالمی سطح پر وطنِ عزیز اپنا لوہا منوائے گا۔سول ملٹری تعلقات کے معاملے میں حکومت کی جانب سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ خوش آئند ہے اور نیک نیتی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس سلسلے میں پائے جانے والے شبہات کا ازالہ ہو اور جو کہا جا رہا ہے واقعتاً ایسا نظر بھی آئے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement