اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

حکومت کے معاشی دعوے اور عالمی اداروں کے تخمینے

آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آئوٹ لک رپورٹ 2021ء میں پاکستان کے بارے میں تخمینہ ظاہر کیا ہے کہ 2021-22ء کے دوران معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد ہو گی جو گزشتہ مالی سال میں 3.9 فیصد تھی‘ جبکہ کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح 8.6 فیصد سے بڑھ کر 9.7 فیصد ہو جائے گی؛ البتہ مانیٹری فنڈ نے پاکستان میں بیروزگاری کی شرح میں 0.2 فیصد کمی کی توقع ظاہر کرتے ہوئے 4.8 فیصد تک رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا کی نئی لہر نے عالمی معیشت کی فوری بحالی کے امکانات کو لاحق خطرات میں اضافہ کر دیا۔ رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں جو اشاریے دیے گئے ہیں‘ ان سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک کی اقتصادیات فروغ پذیر ہیں۔ رپورٹ یہی بتاتی ہے کہ معیشت کے جو حالات جاری مالی سال میں ہیں‘ آئند ہ برس بھی ایسے ہی رہیں گے۔ اگرچہ رپورٹ میں کورونا وبا اور کچھ دوسرے عالمی عوامل اس جمود کی ایک بڑی وجہ قرار دیئے گئے ہیں اور ہمارے کئی حکومتی عہدے دار بھی کورونا وبا کو اقتصادی انحطاط کی ایک بڑی وجہ گردانتے ہیں مگر اس وبا کا زور ٹوٹ رہا ہے اور عالمی سطح پر اقتصادی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں‘ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کورونا کی آڑ لینے کا وقت بیت چکا، اب عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران موجودہ نامساعد اقتصادی مسائل کے حل کے لیے کیا منصوبہ بندی رکھتے ہیں کہ ہم قومی یا عالمی تخمینوں سے کچھ بڑھ کر اقتصادی ترقی کر سکیں‘ معاشی حالات بہتری کی جانب گامزن ہو سکیں اور عوام کو کچھ ریلیف مل سکے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت وزیروں اور مشیروں کی جانب سے خوش کن اعداد و شمار پر مبنی رپورٹس پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہے اور عالمی اداروں کی رپورٹس کو نظر انداز کر رہی ہے۔

کم از کم حکومتی ردعمل سے یہی گمان ہوتا ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں گاڑیوں کے ڈی پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا بھی یہی کہنا تھا کہ حکومت کی دانش مندانہ پالیسیوں نے معیشت کو صحیح سمت میں گامزن کر دیا ہے اور پاکستان خطے میں معاشی مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ ان کا کہنا بجا سہی لیکن ایک کے بعد ایک‘ متعدد عالمی اقتصادی ادارے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے جو تخمینے لگا رہے ہیں اور جو زیادہ خوش کُن نہیں‘ انہیں کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ اس سے قبل امریکی مالیاتی ادارے ایم ایس سی آئی (مورگن سٹینلے کیپٹل انٹرنیشنل) نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ سے ڈائون گریڈ کر کے فرنٹیئر مارکیٹ انڈیکس میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگر ملکی سطح کی بات کی جائے تو ادارہ شماریات کے مطابق‘ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سو فیصد تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مہنگائی سے متعلق اسی ادارے کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ستمبر میں مہنگائی کی شرح 9 فیصد رہی۔ گزشتہ برس سے اشیائے صرف کا موازنہ کیا جائے تو چکن 45 فیصد‘ کوکنگ آئل 39 فیصد‘ آٹا 19 فیصد، بجلی 22 فیصد اور پٹرول 17 فیصد سے زائد مہنگا ہوا جبکہ گرانی کے مقابلے میں شہریوں کے ذرائع آمدن اور قوتِ خرید میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ڈالر کا ریٹ اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے جس سے تیل اور ایل این جی گیس کا درآمدی خرچ بڑھ جائے گا اور لامحالہ اس کے اثرات بھی عام آدمی کی جیب پر پڑیں گے۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں کنسٹرکشن ایکسپو 2021ء کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی پالیسیوں کا اصل ہدف غریب کو اوپر اٹھانا اور کروڑوں پاکستانیوں کو خوشحال بنانا ہے‘ مگر اب تک ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا جس سے امیدوں اور خوش گمانیوں کے تار باندھے جا سکیں۔ لازم ہے کہ حکومت خوش کن اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے باہر نکلے اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عالمی اداروں کی رپورٹوں پر بھی کان دھرے۔ جب تک حکومت صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں کرے گی‘ درست سمت کا تعین بھی ممکن نہ ہو گا۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے دوسرے ممالک میں یہ شعبہ ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا جس کے سبب پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد بڑھانے کا موقع مل گیا‘ کیونکہ یہاں کورونا وبا کا زور دوسرے پڑوسی ممالک کی نسبت کم تھا۔ وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد وہ ممالک اب پھر سے متحرک ہو چکے ہیں، دوسرے لفظوں میں پاکستان کو جو موقع ملا تھا وہ بھی اب سکڑتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں برآمدات کا گراف کیسے بلند رکھا جا سکتا ہے؟ یہی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج اور ایک بڑا سوال ہے۔ حکومت اس چیلنج پر کیسے پورا اترتی ہے اور زرعی شعبے کو کس طرح متحرک اور مستحکم رکھتی ہے‘ قومی معیشت کی ترقی کا انحصار اسی پر ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں حکومت آگے بڑھنے کے لیے کیا راستہ اختیار کرتی ہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بہتر منصوبہ بندی بہتر نتائج و اثرات کی حامل ہو گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement