پٹرولیم کے نرخ اور مہنگائی کا طوفان
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اور اب تک کا سب سے بڑا اضافہ کر کے حکومت نے عوام کے معاشی وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے تجویز کردہ اضافے سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اوگرا کی جانب سے فی لٹر پٹرول کے نرخوں میں پانچ روپے نوے پیسے اور ڈیزل کے نرخوں میں نو روپے پچھتر پیسے اضافے کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ حکومت نے ان مصنوعات کی قیمت میں بالترتیب دس روپے انچاس پیسے اور بارہ روپے چوالیس پیسے اضافہ کر دیا ہے۔ اس طرح پٹرول اور ڈیزل اپنے نرخوں کے سابق ریکارڈ توڑتے ہوئے ملکی تاریخ میں بلند ترین مقام پر پہنچ چکے ہیں‘ اتنا بلند کہ اس ملک کے اکثر عوام کی پہنچ سے توانائی کے یہ وسائل اب واقعتاً باہر ہو چکے ہیں۔ مہنگائی بڑھتی ہے تو لوگوں کے پاس یہ آپشن ہوتا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بڑھا کر اپنی آمدن میں اضافہ کریں مگر وطنِ عزیز میں صنعت کاری‘ بیرونی سرمایہ کاری اور آمدنی بڑھانے کے دیگر وسائل میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام دُہری اذیت کا سامنا کر رہے ہیں کہ اخراجات کا مالی دباؤ مسلسل اور بڑی تیز رفتاری سے بڑھتا جا رہا ہے مگر اسے متوازن کرنے کے وسائل پہلے سے بھی کم ہیں اور مزید سکڑتے جا رہے ہیں؛ چنانچہ وہ لوگ جو ماضی میں متوسط طبقے میں آتے تھے اور کسی نہ کسی طرح ان کی سفید پوشی کا بھرم قائم تھا‘ روزگار کے وسائل کم ہونے اور اخراجات میں گراں قدر اضافے کے بعد نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کے مہنگائی ناپنے والے پیمانے پتا نہیں اس صورتحال کے بارے کیا بتاتے ہیں‘ مگر حقیقی صورت‘ جس کا عوامی زندگی میں بچشم خود مشاہدہ کیا جا سکتا ہے‘ واقعی اس قدر گمبھیر ہے جیسی ملکی تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ حکومت تیل کی قیمتوں میں اس غیر معمولی اضافے کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ کا نتیجہ قرار دے رہی ہے۔
روپے کی قدر میں گزشتہ دو ماہ کے دوران خطرناک گراوٹ‘ جسے سنبھالنے کیلئے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے حکومت نے کنارے پر کھڑے ہو کر روپے کے ڈوبنے کا تماشا دیکھا‘ تیل کی صورت میں مہنگائی کا یہ سونامی اس کا ایک نتیجہ ہے‘ مگر اس کی لہروں کی لپیٹ سے زندگی کا کوئی شعبہ بچا نہیں رہے گا کیونکہ تیل کی قیمتیں بجلی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر تو براہ راست اثر انداز ہوتی ہی ہیں‘ انسانی آمد و رفت اور مال کی بار برداری کے اخراجات پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔ اگر تیل کی قیمت میں اضافہ معمولی ہو تو اکثر شعبے اس فرق کو جذب کر لیتے ہیں اور قیمتوں پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑتا مگر دس اور بارہ روپے فی لٹر کے حساب سے اضافہ اتنا نمایاں ہے کہ اس فرق کو جذب کرنا شاید نجی شعبے کی کسی صنعت‘ کسی شعبے کے لیے ممکن نہ ہو؛ چنانچہ آنے والے چند دنوں میں اگر کئی اشیا کے نرخوں میں اضافے کا رجحان نظر آئے یا قیمتوں میں اضافے کے مطالبات زور پکڑ جائیں تو یہ بلا جواز نہ ہوں گے۔ تان عوام ہی پر ٹوٹتی ہے‘ مہنگائی کا ٹرکل ڈاؤن ایفیکٹ انہی کی کمر توڑتا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن میں یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 85 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں۔ عالمی منڈی کی قیمتوں کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی کی صورت میں حکومت کے محصولات کا خاصا بوجھ بھی اپنی جگہ پر ہے اور قیمتوں میں اضافے کا بڑا سبب ہے‘ مگر ہمارے معاشی مصنوبہ سازوں کو عالمی سطح پر قیمتوں میں مزید اضافے کے رجحان کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی کھپت کے پیش نظر آنے والے چند ماہ میں عالمی منڈی میں تیل 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
یہ صورتحال جب پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرح مبادلہ کے ساتھ کنورٹ کی جائے گی اور اس میں حکومت کے انتہائی بلند محصولات شامل کیے جائیں گے تو پاکستانی عوام کیلئے اس میں سے جو برآمد ہو گا وہ مہنگائی کی بھیانک صورت ہو گی۔ حکومت اس بوجھ کو‘ اپنے انتہائی بلند محصولات کے ساتھ عوام پر نہیں لاد سکتی‘ ایسا ہونا خوفناک نتائج کا محرک بن سکتا ہے؛ چنانچہ حکومت کی وزارتوں اور اہم ذمہ داریوں کے حامل عالی دماغوں اور سرکاری ماہرین کو عوامی نقطہ نظر‘ مسائل اور قوت برداشت کے تناظر میں اس صورتحال کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس دوران جب عوام تیل کی قیمتوں میں حکومتی فیصلے سے سکتے کے عالم میں ہیں‘ بعض حکومتی مشیروں کی جانب سے خطے کے بعض ممالک میں تیل کی قیمتوں کے ساتھ پاکستانی قیمتوں کا تقابل غیر دانشمندانہ ہے۔ اس تقابلی جائزے کا مقصد ایک نئی بحث شروع کرنا اور اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا تو ہو سکتا ہے مگر اس سے نہ تو حکومت کی کارکردگی کی بہتری کا کوئی پہلو نکلتا اور نہ ہی عوامی نظروں میں اسے اس تناظر میں لیا جاتا ہے۔ جب آپ کے لوگ اپنے مسائل کا رونا رو رہے ہوں تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمسائے میں مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں۔ مسائل کا حل مسائل پر توجہ دینے سے نکلتا ہے نہ کہ اس کا دوسروں کے مسائل سے بے وجہ تقابل کرنے سے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوام کے مسائل کے پیشِ نظر اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے!