مہنگائی: حکومت‘ آئی ایم ایف اور عوام
پاکستانی معاشی منیجرز کے دورۂ امریکہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات کے حوالے سے خبریں حوصلہ افزا نہیں۔ اگرچہ وزارت خزانہ کے ترجمان اسے ناکامی ماننے پر آمادہ نہیں اور یہ جواز پیش کر رہے ہیں کہ آج (پیر) سے بات چیت دوبارہ شروع ہو گی‘ مگر ہفتے کے روز جس نقطے پر یہ سلسلہ جا کر رک گیا تھا اس سے آگے بڑھنے کی بظاہر ایک ہی صورت ہو سکتی کہ حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے اور اشیا کی مہنگائی کے فارمولے کو من و عن قبول کرلے‘ مگر پاکستانی شہریوں کے معاشی معاملات اور حکومت کی سیاسی ساکھ کیلئے اس کے غیرمعمولی اثرات ہوں گے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کے ریویو میں کامیاب ہونے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اشیا مہنگی کرنے اور ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی جو تجاویز دی گئیں‘ ان پر عمل کیا‘ اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے‘ جب دنیا بھر کی طرح پاکستانی معیشت بھی کورونا کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے مالیاتی سختیوں کے بجائے سہولتوں کی ضرورت ہے تاکہ کورونا کے منفی معاشی اثرات کا ازالہ ممکن ہو سکے‘ اس کیلئے ٹیکس اور توانائی میں ریلیف ہی دو بنیادی مطالبے تھے‘ مگر حکومت اس حساس دورانیے میں بھی بجلی اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کرتی رہی‘ ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کیا گیا اور ڈالر کی شرح مبادلہ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مہنگائی کے طوفان کیلئے راستہ ہموار کیا گی
ا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ہدف سے 38 فیصد زائد وصولیاں کرکے خوش تھا‘ اور وزیراعظم اس پر قوم کو مبارکباد دے رہے تھے‘ مگر آئی ایم ایف کو ان میں سے کچھ بھی خوش نہیں کرسکا۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافے تو عین اس وقت ہوئے جب وزیر خزانہ اپنی ٹیم کے ہمراہ واشنگٹن میں موجود تھے مگر آئی ایم ایف کا مزاج ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان پر ابھی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے‘ اسی لیے اب تک کے تمام اقدامات جو حکومت نے بجلی‘ گیس‘ تیل اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی صورت میں کیے انہیں ناکافی قرار دیتے ہوئے ’ڈو مور‘ کے موقف پر قائم ہے‘ مگر یہ صورتحال صرف اسی لحاظ سے حساس نہیں کہ ملک کو ایک ارب ڈا لر قرض کی قسط ملتی ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی اہم سوال ہے کہ حکومت اس قسط کی منظوری میں کہاں تک جا سکتی ہے۔ کیا حکومت جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر یعنی تقریباً سوا پانچ سو ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لے گی؟ اگر ایسا ہوا تو اس کے جو نتائج ہوں گے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ توانائی اور اشیائے خورونوش کی مہنگائی سے عوامی قوتِ خرید پہلے ہی پیندے سے لگ چکی ہے۔ اس میں سے اب کچھ اور نکالنا وسائل میں اضافے تک ممکن نہیں‘ مگر اس جانب کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی۔ لے دے کے ایک ٹیکسٹائل کا شعبہ ہے جس کی برآمدات میں اضافے کی خبریں حکومت کی صنعتی پالیسی کی کامیابی کے حوالے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں‘ مگر کتنے لوگ ہیں جن کا روزگار ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ ہے؟ مجموعی ملکی آبادی میں ان کا تناسب کیا ہے؟ اگر اس شعبے کی معتدل کارکردگی سے اس شعبے سے منسلک افراد کے وسائل آمدنی میں کچھ اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب سروسز اور دیگر صنعتی شعبوں میں کوئی جنبش نظر نہیں آتی اور ان کارکنوں کی کیا حالت ہو گی‘ حکومت کو اس پر بھی سوچنا چاہیے۔ ان لوگوں کو جو بلاشبہ آبادی کا اکثریتی حصہ ہیں‘ نظر انداز کرکے اگر حکومت عالمی مالیاتی ادارے کا دباؤ قبول کرتے ہوئے پانچ سو ارب روپے سے زائد کا مزید بوجھ عوام پر ڈالتی ہے تو یہ صرف معاشی مسئلہ نہیں رہ جائے گا‘ اس سے سیاسی اور سماجی مسائل بھی متحرک ہوں گے۔ حکومت اگر سمجھ رہی ہو تو اپوزیشن کی جماعتوں کی حالیہ دنوں کی حرکت میں اس کے اشارے موجود ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت کیلئے کئی مشکلات اکٹھی ہو رہی ہیں اور اس طوفان میں مسائل کا اور کتنا خس و خاشاک شامل ہو سکتا ہے‘ اس کا اندازہ نہیں کیا جا رہا۔
حکومت کیلئے اہم ہے کہ عوام کے لیے سہولتیں پیدا کرے۔ اگرچہ حکومت نے گزشتہ تین برسوں کے دوران ان گزارشات‘ سفارشات اور تجاویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا مگر اب دورِ حکومت کی لمبی سرنگ کا دوسرا سرا قریب آ چکا ہے؛ چنانچہ کچھ اپنی سیاست کے لیے اور کچھ اس ملک کے عوام کیلئے حکومت کو متحرک ہونا ہوگا بصورت دیگر یہ دور عوامی یادداشت میں تلخیوں بھری یادوں کے طور پر باقی رہے گا۔ ملک میں سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بھی ایسا کیا جانا ضروری ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ آئی ایم ایف کی تجاویز پر آنکھیں بند کرکے آگے بڑھنے کا نتیجہ پاکستان میں مصر کی تاریخ دہرانے کا باعث بن سکتا ہے‘ جہاں بارہ ارب ڈالر کے قرضے سے 2016ء میں دیوالیہ پن کا خطرہ تو ٹل گیا‘ مگر عالمی ادارے کی تجاویز اور سخت شرائط کے باوجود اُس ملک کے معاشی ڈھانچے کے مسائل کا ہرگز ازالہ نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے موجودہ چھ ارب ڈالر قرض میں سے 2019ء سے اب تک صرف دو ارب ڈالر ہی وصول کیے گئے ہیں مگر اس دوران جو معاشی دباؤ عالمی مالیاتی ادارے کی تجاویز کی صورت میں وارد ہوا وہ محتاجِ بیان نہیں۔ پاکستانی معاشی منیجرز کو اب بھی چاہیے کہ بلا سوچے سمجھے سخت ترین شرائط پر آمین کہنے کے بجائے ملک و قوم اور یہاں کے معاشی حالات کو دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔