فضائی آلودگی کا تدارک ممکن ہے!
ایک خبر کے مطابق پنجاب یونیورسٹی نے فضائی آلودگی کے زمینی حقائق جانچنے کیلئے لاہور میں پہلی بار سنسرز نصب کر دیے ہیں۔ لاہور بھر میں 10 سنسرز لگائے گئے ہیں جبکہ اگلے مرحلے میں یہ پورے پاکستان میں لگائے جائیں گے۔ آلودگی کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں اور سموگ کو سمجھنے میں یہ سنسرز زمینی حقائق کے ساتھ ڈیٹا بھیجیں گے جس کی نہ صرف عوام تک رسائی ہو گی بلکہ یہ اعدادوشمار دنیا بھر کے محققین کیلئے مفید ثابت ہوں گے۔ سنسرز کی تنصیب خوش آئند ہے کہ اس سے پہلے مرحلے پر لاہور شہر‘ اور دوسرے مرحلے میں پورے پاکستان میں آلودگی کو ناپنے میں مدد ملے گی اور یوں جامع منصوبہ بندی ممکن ہو سکے گی؛ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں فضائی آلودگی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کے پیشِ نظر یہ اقدام بہت پہلے کر لیا جانا چاہیے تھا۔ ہمارے ہاں فضائی آلودگی کے بڑھنے کی تین بڑی وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ یہاں جنگلات کا رقبہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں‘ بلکہ یہ رقبہ اس معیار سے کہیں کم ہے۔ ماضی میں جنگلات تیزی سے کاٹے گئے اور ان کی جگہ نئے جنگلات اگانے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی‘ نتیجہ اس کا سب کے سامنے ہے۔
بہرحال موجودہ حکومت کی جانب سے بلین ٹری منصوبہ اس مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہوگا اور امیدِ واثق ہے کہ جلد ہی ہمارے ملک میں جنگلات کے رقبے میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ دوسری وجہ ہر سال اکتوبر نومبر میں دھان کی فصل کی باقیات کا جلایا جانا ہے‘ جس کے نتیجے میں ہر سال ان مہینوں میں سموگ جیسا نیا عامل اب آہستہ آہستہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں سموگ کی شدت کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ حکومت ان دونوں عوامل پر قابو پانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے جس میں اسے محض جزوی کامیابی ملی ہے۔ سموگ پر مکمل قابو پانے کیلئے مزید ٹھوس اقدامات اور آلودگی کے حوالے سے وضع کیے گئے قوانین کو نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فضائی آلودگی بڑھانے میں تیسرا بڑا کردار گاڑیوں سے نکلے والا دھواں ہے۔
پاکستان میں یومیہ پانچ لاکھ چھپن ہزار بیرل سے زیادہ پٹرولیم مصنوعات استعمال کی جاتی ہیں اور 88262 بیرل تیل روزانہ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے باقی درآمد کرنا پڑتا ہے۔ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں میں اتنا پٹرول جلنے سے کتنی مضرِ صحت گیسیں پیدا ہوتی اور فضا کو آلودہ کرتی ہوں گی جبکہ بھاری مقدار میں پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے پر زرِ مبادلہ کے قومی ذخائر پر کیا اثرات مرتب کرتے ہوں گے۔ قومی خزانے اور وطنِ عزیز کی فضائوں پر پڑنے والے اس بوجھ کو کم کرنے کا بھی طریقہ ہے‘ لیکن افسوس کی حکومتوں کی توجہ اس طرف کم ہی جاتی ہے۔ یہ طریقہ ہے پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھانا تاکہ لوگوں میں نجی ٹرانسپورٹ رکھنے کے رجحان کو کم کیا جا سکے۔ ہے کوئی جو اس بارے میں سوچے؟