اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بلوچستان میں سیاسی بحران

بلوچستان میں جاری سیاسی بحران گزشتہ روز اس وقت شدت اختیار کر گیا جب صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ یہ تحریک رکن اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے پیش کی جس میں سردار جام کمال کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جام کمال کی جگہ اکثریت کے حمایت یافتہ دوسرے رکن اسمبلی کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا جائے۔ سپیکر بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد کو بحث کے لیے منظور کرنے سے متعلق ووٹنگ کرائی تو 65 ارکان کے ایوان میں 33 نے اس کی حمایت کی۔ وزیر اعلیٰ نے تجویز دی کہ سپیکر اسمبلی ووٹنگ کے لیے الگ سے دن مقرر کریں۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے عبدالرحمن کھیتران کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ اپنے طور پر صوبے کے معاملات چلا رہے ہیں، اہم معاملات کو مشاورت کے بغیر چلانے سے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس تحریک عدم اعتماد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ ووٹنگ ڈے پر واضح ہو جائے گا؛ تاہم سیاسی میدان میں کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ 2019ء میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ ابھی ذہنوں میں تازہ ہے کہ 64 ارکانِ سینیٹ نے اس عدم اعتماد کی تائید کی مگر ووٹنگ میں صرف 50 نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اگرچہ تحریکِ عدم اعتماد کسی سربراہِ حکومت کو ہٹانے کا آئینی طریقہ ہے لیکن اس زمینی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا اقدام گورننس کے عمل کو سست کر دیتا ہے۔

یہ سارا منظرنامہ 2018ء کی بلوچستان حکومت کی یاد بھی تازہ کر رہا ہے جب مسلم لیگ نواز کی ثنااللہ زہری حکومت کو ہٹا کر مسلم لیگ (ق) نے اتحادی جماعتوں کے ذریعے عبدالقدوس بزنجو کی ’’پنج ماہی‘‘ حکومت قائم کی تھی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا یہ سب سے بڑا صوبہ سب سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ 1970ء سے اب تک پانچ بار صوبے میں گورنر راج لگایا جا چکا ہے جبکہ سیاسی حکومتوں کے سفر میں بھی رخنہ اندازی کی جاتی رہی۔ اگر موجودہ سیاسی بحران کا جائزہ لیں تو اس کے آثار امسال جون میں ہویدا ہونا شروع ہوئے جب اپوزیشن اراکین نے اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں تک صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا کیونکہ حکومت نے بجٹ میں ان کے حلقوں کیلئے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بہرحال اس وقت بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 23 ہے جبکہ دو اراکین آزاد ہیں۔

اپوزیشن محض اپنے اراکین کے ذریعے اس قرارداد کو منظور نہیں کرا سکتی، اسے حکومتی اراکین کی حمایت کی ضرورت ہو گی اور اس وقت کئی اراکین اس کے ساتھ کھڑے نظر بھی آ رہے ہیں لیکن اگر حکومت ناراض اراکین اور اتحادیوں کو منانے میں کامیاب ہو گئی تو تحریک ناکام ہو جائے گی؛ تاہم اس ساری مشق میں نقصان صوبے کے عوام کا ہو گا جو اس منتخب ایوان سے اپنے مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ بیروزگاری اور مہنگائی کے ساتھ امن و امان بھی صوبے کا بڑا مسئلہ ہے مگر اس وقت اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں کی تمام تر توجہ سیاسی بحران پر مبذول نظر آتی ہے۔ ضرورت ہے کہ فریقین افہام و تفہیم سے درمیانی راہ نکالیں۔ سربراہِ حکومت کے طور پر وزیراعلیٰ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کابینہ، پارٹی اراکین اور اتحادیوں سمیت پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلیں کیونکہ وہ محض حکومتی جماعت کے نہیں پورے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ عہدے کی مناسبت سے ان پر ذمہ داریاں بھی زیادہ عائد ہوتی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement