مہنگائی: دور رس اقدامات ناگزیر !
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے ریلیف اور منافع خوروں کے خلاف اقدامات کی خبروں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز کہا ہے کہ مہنگائی کے باعث عام آدمی کی تکالیف سے وہ پوری طرح آگاہ ہیں‘ مگر سوال یہ ہے کہ پھر عام آدمی کی دشواریاں کم ہونے کا نام کیوں نہیں لیتیں؟ اگر وزیر اعظم عام آدمی کے مسائل کو واقعتاً سمجھتے ہیں تو ایسے اقدامات کا کیا جواز ہے جن کی زد سیدھی غریب آدمی کے پیٹ پڑتی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر بکنے والی اشیا کے نرخوں میں مسلسل جس تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے‘ اس کا پہلا نشانہ تو یہی کم آمدنی والا طبقہ ہے۔ ریلیف کی باتیں اپنی جگہ مگر ابھی تک کوئی ریلیف کسی انکم بریکٹ کے طبقے کو نہیں ملا۔ اب تک تو حکومت اشیائے خور و نوش پر پہلے سے دستیاب ریلیف کو کم کرنے پر ہی توجہ دیتی رہی ہے۔ جہاں تک منافع خوروں کے خلاف کارروائی کا تعلق ہے تو حکومت کی جانب سے منافع خور مافیا کا جو بیانیہ پیش کیا جاتا ہے‘ بنیادی طور پر وہ مہنگائی کے مسئلے کی درست نشان دہی نہیں کرتا۔ ہمارے ملک میں منہ زور مہنگائی کا تعلق کچھ حد تک منافع خوری سے ہو سکتا ہے مگر بنیادی مسئلہ اس سے اوپر کی سطح پر ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ ڈالر کی شرح مبادلہ 174 روپے سے تجاوز کر چکی ہے اور اس کا اثر درآمدی اشیا اور توانائی کے وسائل‘ سبھی پر پڑ رہا ہے۔ ایک طرف روپے کی قدر میں کمی اور دوسری جانب ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور چند بنیادی اشیا کے علاوہ خور و نوش اور ضروریاتِ زندگی کی تقریباً سبھی اشیا پر ٹیکسوں کی بلند ترین شرح‘ دونوں ان اشیا کی قیمتوں پر اچھا خاصا اثر ڈالتے ہیں؛ چنانچہ مہنگائی کے اسباب نام نہاد منافع خور مافیا نہیں بلکہ روپے کی قدر میں کمی‘ توانائی کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ اور ٹیکسوں کی بھرمار جیسے حکومتی اقدام ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ حکومت یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے ضروریاتِ زندگی کی نسبتاً سستی ملنے والی اشیا کے نرخوں میں بھی اضافہ کرتی جا رہی ہے؛ چنانچہ جس مہنگائی نے عوام کو ہلکان کر رکھا ہے اس کے پیچھے منافع خور طبقے سے زیادہ حکومتی منصوبہ بندی اور ترجیحات کا ہاتھ نظر ہے‘ مگر بیان یہ کیا جاتا ہے گویا سب ناجائز منافع خوری کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ بالفرض یہ سب ناجائز منافع خور ہی کر رہے ہیں تو حکومت کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے‘ کیوں مداخلت نہیں کرتی تاکہ عوام کو فائدہ پہنچے؟
گزشتہ تین برسوں کے حالات و واقعات شاہد ہیں کہ مہنگائی کے مسائل نے جب بھی شدت اختیار کی تو حکومت کی جانب سے پرائس کمیٹیوں کو متحرک کرنے اور منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے اعلان کیے گئے۔ خود وزیر اعظم اس معاملے پر متعدد اجلاس کر چکے ہیں اور صوبائی انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے ہدایات دے چکے ہیں‘ مگر مہنگائی کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو یہ قفل کھولنے کیلئے چابی بدلنی پڑے گی۔ منافع خوروں کے خلاف ضرور کارروائی جاری رہنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی خصوصی اہتمام کی ضرورت بھی شاید نہ پڑے اگر پرائس کمیٹیوں کا میکنزم‘ جو انتظامی سسٹم کا حصہ ہے‘ اپنا کام ذمہ داری سے کرے‘ مگر مہنگائی کے مسائل کو حل کرنے کا بیڑا اٹھانے سے پہلے ان مسائل کو وسیع تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کے اسباب حکومت کی اکنامک پالیسیوں سے پیدا ہوتے ہیں‘ جیسا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں‘ روپے کی قدر میں گراوٹ اور ٹیکسوں کی بلند شرح۔ مہنگائی کا ایک بڑا سبب طلب اور رسد کا فرق بھی ہے مگر حکومت نے اس معاملے کو کنٹرول کرنے سلسلے میں بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ ملکی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خوراک کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ قلت اور درآمد کے جھنجٹ سے بچا جا سکے‘ لیکن ہماری حکومتوں کی توجہ اس جانب نہیںحالانکہ دستیاب وسائل‘ مہارتوں اور ماحول سے اگر بھرپور فائدہ اٹھایا جائے تو نہ صرف یہ کہ ملکی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں بلکہ پاکستان خوراک کی متعدد اجناس برآمد کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔ اس فاضل پیداوار کی کھپت کیلئے خطے ہی میں ایک اچھی برآمدی منڈی مل سکتی ہے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ پیداوار بڑھانے پر توجہ دی جائے‘ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور ایک ایسا ملک جو زرعی معیشت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے‘ اس کو گندم اور چینی‘ موسمی سبزیاں اور پھل‘ دودھ اور دودھ کی مصنوعات اور مشروبات تک درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ ترجیحات کا سلسلہ یہی رہا تو خوراک کی مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
اب جبکہ اپوزیشن کی جماعتیں اشیائے خور و نوش اور توانائی کی مہنگائی کو بنیاد بنا کر احتجاجی مظاہروں پر تلی ہوئی ہیں تو حکومت ریلیف کی امید دلا رہی ہے اور عوام کی مشکلات پر ان سے یک جہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس ہنگامی صورتحال میں حکومت اگر اس مقصد کیلئے کچھ کرتی بھی ہے تو وہ اقدامات سطحی اور ڈنگ ٹپاؤ قسم کے ہوں گے۔ حقیقی‘ پائیدار اور دور رس اثرات کے حامل اقدامات کیلئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے مگر حکومت اس کام کیلئے بہترین وقت ضائع کر چکی ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے حکومت کو ٹھوس‘ جامع‘ دیرپا‘ دور رس مستقل پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔