اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاک چین اعلیٰ سطحی رابطے

وزیر اعظم عمران خان اور چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ روز ٹیلی فونک گفتگو میں دو طرفہ تجارتی اور معاشی تعلقات مزید مستحکم کرنے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اعلیٰ معیار کے عملی مظاہرے کے طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کی ترقی کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ سی پیک کے دوسرے فیز میں صنعتی اور اقتصادی زونز اور ایم ایل ون ریلوے لائن کا منصوبہ بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں روڈ انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر نمایاں کام ہوا مگر دوسرے مرحلے میں ریل روڈ کو ترقی دینا بنیادی ضرورت اور سی پیک کی صنعتی سرگرمیوں کا تقاضا ہے۔ اس حوالے سے ایم ایل ون منصوبہ ایک مدت سے زیر بحث ہے۔

اس منصوبے کے تحت کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن اور سگنل سسٹم کی تجدید کی جائے گی جس کے بعد ریل گاڑی 120 سے 160 کلومیٹر کی رفتار سے چل سکے گی۔ مین ریلوے لائن کی ناقص حالت ہر سال ملک میں ریل گاڑیوں کے درجنوں چھوٹے بڑے حادثات کا سبب بنتی ہے مگر وقت کی اس اہم ضرورت کی جانب ہماری حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ماضی کی حکومتیں ہی اس کی ذمہ دار نہیں بلکہ موجودہ حکومت پر بھی سست روی اور بے توجہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) اور ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ای سی این ای سی) کی جانب سے منظوری مل جانے کے باوجود پاکستان ریلوے کیلئے لائف لائن کی اہمیت کے حامل اس منصوبے کی شروعات نظر نہیں آتی‘ نہ ہی اس کے مستقبل کے حوالے سے کسی خوش گمانی کا شکار ہوا جا سکتا ہے‘ تاہم یہ طے ہے کہ اگر ہم ملک کو صنعتی ترقی کی جانب لے کر جانا چاہتے ہیں تو ریلوے کا جدید انفراسٹرکچر اس کی بنیادی ضرورت ہے۔

سڑکوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر اخراجات‘ ماحولیاتی اثرات اور رفتار سمیت کئی ایسے فیکٹرز ہیں جو صنعتی ترقی کیلئے ریلوے کی اہمیت کو ناگزیر ثابت کرتے ہیں؛ چنانچہ چین کے ساتھ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ہماری حکومت کی ترجیح بنیادی طور پر ایم ایل ون ریلوے پروجیکٹ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر دور کیا جانا چاہیے۔ یہ حقیقت ظاہر و باہر ہے کہ جب ریلوے نیٹ ورک کی تجدید اور ترقی کی بات آئے گی تو بے شمار انٹرسٹ گروپس متحرک ہوں گے اور ناقابل تصور رکاوٹیں ابھریں گی‘ مگر حکومت اور اداروں سے یہ حقیقت اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ صنعتی ترقی کیلئے رسل و رسائل کی ضرورتیں جدید اور قابل بھروسا ریلوے نیٹ ورک کے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں‘ اس لیے ریلوے نیٹ ورک کی تجدید اور ترقی کے عمل میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ بہترین قومی مفاد میں ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی اور اقتصادی زونز کی ترقی بھی خصوصی توجہ کا مرکز ہونی چاہیے۔

سی پیک سے جڑی اقتصادی توقعات کو پورا کرنے کیلئے صنعتی زونز اور چینی صنعتوں اور کاروباری اداروں کی یہاں منتقلی اور سرمایہ کاری ضروری ہے۔ یہ وقت اس لحاظ سے اہم ہے کہ کووڈ کی عالمگیر وبا کے بعد دنیا معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے مرحلے میں ہے۔ ہماری حکومت اور اداروں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے متحرک ہونا پڑے گا۔ علاقائی جیوسٹریٹیجک صورتحال بلاشبہ ہماری حکومت کی توجہ چاہتی ہے مگر ضروری ہے کہ جیوسٹریٹیجک اور پولیٹیکل اکانومی میں توازن قائم کیا جائے۔ ابھی ہمارا علاقائی سیاسی اور تزویراتی معاملات کا پلڑا زیادہ بھاری نظر آتا ہے۔ افغانستان کی صورتحال کی اہمیت واضح ہے مگر ہمیں اپنی قومی معیشت کی بحالی کا جو چیلنج درپیش ہے افغانستان کے معاملات میں ہماری کل وقتی مصروفیت اس کی تلافی نہیں کرسکتی۔ ملک کی 60 فیصد سے زائد نوجوان آبادی کام کاج کی ضرورتمند ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی حالیہ کچھ عرصے میں تاریخی بلندیوں پر پہنچ چکی ہے اور آنے والے وقت میں مزید بڑھنے کی جانب راغب ہے‘ یہ معاشی دباؤ بذات خود ذرائع آمدن بڑھانے کی ایک بڑی وجہ ہے؛ چنانچہ حکومت کی توجہ سی پیک سے جڑے ان منصوبوں کی جانب ہونی چاہیے جو ملکی اور انفرادی معیشت میں براہ راست اور فوری حصہ ڈال سکیں۔ ضروری ہے کہ ان منصوبوں پر کام کی رفتار بڑھائی جائے اور پیشرفت کو تیز کیا جائے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ تجارتی توازن قائم کرنے کیلئے بھی کوشش کرنا ہوگی۔ چین ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہے اور ٹیکسٹائل اور خوراک کی مصنوعات سمیت ایسی کئی اشیا ہیں جن میں چین پاکستان کیلئے اہم برآمدی منڈی بن سکتا ہے۔ اس کیلئے دونوں ممالک کی حکومتیں پہلے بھی کام کر رہی ہیں لیکن تجارتی توازن کے فرق کو کم کرنے کیلئے ابھی بہت سا کام کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان اور چین کو پراڈکٹ ڈیزائن‘ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ برانڈز‘ مارکیٹنگ‘ کنسلٹنگ اور دیگر شعبوں میں مل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی برآمدات کو بڑھانے میں چین نے جس طرح تیز ترین ترقی کی ہے وہ ہمارے لیے سبق آموز ہے‘ چینی صنعتکار دنیا کے ساتھ کس طرح کام کرتے ہیں‘ ہمارے صنعتی شعبے کو اس سے سیکھنا ہوگا۔ پاک چین دوستی کے محاسن یوں تو بہت سے ہیں مگر معاشی اور صنعتی شعبے میں ہم پاکستانی اس تعلق کا فائدہ یوں بھی اٹھا سکتے ہیں کہ چین سے برآمدات بڑھانے کے گر سیکھیں اور اپنی صنعت اور پیداوار کو زیادہ منافع بخش بنائیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement