اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

رِٹ آف گورنمنٹ: مستقل حل نکالنا ہوگا!

گزشتہ چند روز سے ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے جاری مارچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ روز بھی احتجاج کے دوران گوجرانوالہ میں مزید تین پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ ممکنہ لانگ مارچ کے تناظر میں جی ٹی روڈ مکمل طور پر بند ہے‘ جس کے باعث لوگوں کو ایک سے دوسرے شہر‘ حتیٰ کہ اپنے علاقے میں نقل و حرکت میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مختلف شہروں میں موبائل سروس بند ہونے کے باعث لوگوں کو اپنے عزیزوں‘ رشتے داروں سے رابطوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اور یہ تو واضح ہے کہ صوبے بھر میں کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ حالات کیسا گمبھیر رخ اختیار کر چکے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے احتجاج کی آڑ میں پولیس والوں کو مارنے کو ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ راستے بند کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا جبکہ وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مظاہرین کو جہلم سے آگے کسی صورت نہیں آنے دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں پنجاب میں 60 روز کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بتایا ہے کہ حکومت نے کالعدم تنظیم سے عسکری تنظیم کی طرح نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے چھ دفعہ تماشا لگ چکا اور ریاست نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا جبکہ اب ہم ان کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر ٹریٹ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج واضح فیصلہ کیا گیا ہے کسی کو ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرنے دیا جائے گا۔ دراصل یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف بڑی تاخیر سے توجہ مبذول کی گئی ہے۔ رٹ آف گورنمنٹ یا ریاست یقینی بنانے کا اقدام اگر اس وقت کر لیا جاتا جب پہلی دفعہ احتجاج کا معاملہ شروع ہوا تھا تو آج حکومت کو رینجرز طلب کرنے اور کالعدم تنظیم سے عسکری تنظیم کی طرح نمٹنے جیسے فیصلے نہ کرنا پڑتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے ملک اور معاشرے میں جس قدر بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر ریاست کی رٹ بروقت قائم نہ کرنے کا نتیجہ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے۔ تساہل پسندی کا یہ سلسلہ رٹ آف گورنمنٹ کے حوالے سے بھی قائم رہا۔

ریاست کی رٹ اس وقت قائم ہوتی ہے جب آئین اور قوانین کو بلا لحاظ بروئے کار لایا جائے۔ ماضی میں ایسا نہ کیا جا سکا۔ موجودہ حکومت نے بھی اس اہم مسئلے کے حل پر توجہ نہیں دی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آزادیٔ رائے کا حق سب کو حاصل ہے۔ کوئی بھی فرد یا گروہ اپنے مطالبات حکومت کے روبرو پیش کر سکتا ہے۔ احتجاج بھی فرد یا افراد کا حق ہے اور انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انتظامی معاملات کو سلب کر دیا جائے اور معاشرے کو جمود کا شکار۔ ریاست کا ایسی کسی صورت حال کے خلاف متحرک ہونا بنتا ہے‘ لیکن اس حوالے سے اقدامات محض موجودہ صورتحال کو ڈی فیوز کرنے تک محدود نہیں رہنے چاہئیں۔ ایسے مستقل اقدامات اور انتظامات کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ کوئی بھی فرد یا افراد کا گروہ ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کر سکے۔ اس حوالے سے یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ احتجاج کرنے والوں سے جو وعدہ یا معاہدہ کیا گیا تھا‘ اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہیے تھا چاہے پارلیمنٹ سے اس مطالبے کو مسترد ہی کر دیا جاتا۔ یوں معاملات کو لٹکائے رکھنے سے پھر ایسے ہی حالات پیدا ہو سکتے ہیں‘ جن کا سامنا آج حکومت کو ہے اور عوام کو بھی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement