اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پسماندگی کے اسباب اور حکومت کی کارکردگی

امریکی مسلم سکالر حمزہ یوسف کے ساتھ انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی پسماندگی کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قومی وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ ہے جبکہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں عوام کی اکثریت صحت‘ تعلیم اور انصاف کی سہولیات سے محروم ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ ملکی پسماندگی کے اسباب کے ذکر میں وزیر اعظم نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ بلا شبہ یہی اسباب ملکی مسائل کی جڑ ہیں جن کا ذکر وزیر اعظم صاحب نے کیا؛ تاہم قوم نے چونکہ انہی مسائل کے حل کی غرض سے ان پر اعتماد کیا اور حق حکمرانی سونپا؛ چنانچہ بحیثیت وزیر اعظم انہیں مسائل کے اسباب گنوانے کے بجائے ان اقدامات پر روشنی ڈالنی چاہیے جو انہوں نے ان مسائل کے حل کی غرض سے اپنے دور حکومت میں کیے‘ اور اس بات پر کہ ان اقدامات کے اثرات ملک اور عوام کے لیے کیا تبدیلی لے کر آئے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ ہی ان کا انتخابی منشور تھا اور اس میں شک نہیں کہ عوام کے لیے اس نعرے میں بڑی کشش تھی کیونکہ انہیں یہی باور کرایا گیا تھا کہ ماضی کا طویل مدتی ’سٹیٹس کو‘ ہی ان کے مسائل کا اصل ذمہ دار ہے۔ مگر عام انتخابات کے آج قریب ساڑھے تین سال بعد جب حکومت کے تبدیلی کے منشور کو دیکھتے ہیں تو اس میں قابل ذکر پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ حکمران جماعت نے تبدیلی کا جو ایجنڈا پیش کیا اس میں کوئی ابہام نہیں تھا مگر اس ایجنڈے کو عملی شکل دینے کے لیے جس توجہ اور کوشش کی ضرورت تھی وہ نظر نہیں آ رہی۔ حکومتی سوچ واضح طور پر انتشار کا شکار ہے‘ اور یہ صرف مرکز تک محدود نہیں‘ صوبائی حکومتیں میں بھی یہی مسائل ہیں۔

ایسے حالات میں مسائل کم نہیں ہوتے‘ بڑھتے ہیں۔ ملکی وسائل پر اشرافیہ کے قبضے کی حقیقت تو ظاہر و باہر ہے‘ حکمران اگر اس کی نشان دہی نہ کریں تب بھی یہ ایک معلوم حقیقت ہے‘ مگر حکمرانوں کا منصب مافیاز کے چنگل سے ملکی وسائل کو چھڑانا‘ عوام کو ان کے حقوق دلانا اور ملک میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اس مقصد میں موجودہ حکومت کو کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی‘ دنیا کو بتانے والی بات تو یہ ہے۔ ماضی کے مقابلے میں قانون کی حکمرانی میں کیا بہتری آئی؟ جمہوری رویے کو کتنا فروغ ملا؟ عوام کو بنیادی سہولیات کے معیار میں کہاں تک ترقی ہوئی؟ بد عنوانی کا جو سرطان ملکی نظام کو مفلوج کر رہا ہے‘ اس کے سدِ باب کے لیے کیا کیا گیا؟ سرکاری اداروں میں خدمات اور عوامی قدر و منزلت کے معیار میں کیا تبدیلی آئی؟ حکومتی کارکردگی جانچنے کے لیے یہی پیمانے کافی ہیں۔ ماضی کو کوستے ہوئے اور مسائل کا واویلا کرتے ہوئے ہم قومی سطح پر بہت وقت گزار چکے۔ قومی مسائل پر پاکستان کے کسی بچے سے سوال کریں گے تو وہ بھی اس موضوع پر متاثر کن تقریر کر سکتا ہے‘ مگر ان سوالات کا جواب وہی دے سکتا ہے جس کے پاس تبدیلی کا مینڈیٹ ہو۔ حکومت کے اپنے پیمانے کیا کہتے ہیں؟ اس کا جواب حکومت کو دینا چاہیے مگر بادی النظر میں تبدیلی کے قابلِ ذکر آثار موجود نہیں ہیں۔ قانون کی حکمرانی‘ عوام کا معیارِ زندگی‘ بنیادی سہولیات‘ شفافیت اور زندگی کی آسودگی کے اعتبار سے ساڑھے تین سال کا یہ عرصہ ماضی کے اسی دورانیے سے بہتر نہیں ہے۔ اگر حرکت جاری ہے تو فاصلہ کیوں کم نہیں ہو رہا؟ اس موقع پر ان سوالوں کا جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ جمہوری نظام میں پہلا ایک ڈیڑھ برس تو حکومت کو نظام قائم کرنے میں لگ جاتا ہے مگر اس پنیری کو دور اقتدار کے دوسرے‘ یا تیسرے سال میں تو ضرور بار آور ہو جانا چاہیے۔ ہماری حکومت کے معاملے میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا حکومتی کوشش میں کہیں کمی رہ گئی؟ اس کا تجزیہ ہونا چاہیے۔ کوشش کی ناکامی کو مان کر چلنا کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے‘ اس کے بر عکس ناکامی کو کامیابی بنا کر پیش کرنے یا اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے سے اصلاح کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ اس باریک فرق کی پرکھ ہماری قومی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ قومی جدوجہد میں وقت کی تقسیم اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے سیاسی رہنما کھیل کے میدانوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ میدان میں اترنے والا ہر کھلاڑی اپنی جگہ مکمل ٹیم کے احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کرتا ہے۔ وہ اپنی کامیابی ضرور شیئر کرتا ہے مگر ناکامی کا بوجھ خود اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ناکامی اسے کوشش کی سپرٹ اور اعتماد سے محروم نہیں کرتی۔

وہ خود اعتمادی سے آراستہ ہوتا ہے مگر دوسرے کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ نہیں لگاتا۔ کھیل میں ہر لمحہ اہم سمجھ کر کھیلا جاتا ہے‘ ساری امیدیں آخری کچھ وقت میں کرشمات سے وابستہ نہیں کر لی جاتیں۔ شاید اسی کھلے پن‘ شفافیت‘ عزم‘ حوصلے اور لگاؤ کی وجہ سے لوگ کھلاڑیوں کے گرویدہ ہوتے ہیں‘ مگر سیاست میں اس کے برعکس ہوتا ہے‘ لوگ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے آپ ہی کو پوری پارٹی سمجھ لیتے ہیں۔ کامیابی کا کریڈٹ خود لینے اور ناکامی سے چھپنے کا مزاج۔ شاید اسی وجہ سے سیاسی رہنماؤں میں ہیرو کا درجہ حاصل کرنے والے خال خال ملتے ہیں۔ پاکستانی کی سیاست میں جن خرابیوں کا تذکرہ اکثر کیا جاتا ہے‘ وزیر اعظم عمران خان نے بھی جنہیں حال ہی میں دہرایا ہے‘ ان کو حل کرنے کے لیے لمبی جدوجہد چاہیے‘ مگر سفر چاہے جتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو‘ اس کا آغاز تو پہلے قدم سے ہوتا ہے‘ بد قسمتی سے ہماری قومی سیاست میں وہ درست قدم بھی ابھی دکھائی نہیں دیتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement