اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مافیاز پر الزامات کب تک؟

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز کھاد کے موجود سٹاک اور قیمتوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس میں حکام کو ہدایت کی کہ ذخیرہ اندوزی اور نا جائز منافع خوری میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ یہ بڑی صائب ہدایت ہے جس پر فوری طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے تاکہ عوام کو تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات سے بچایا جا سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ روز افزوں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کو ملنے والی کھلی چھوٹ ہے۔ ان کی یہ آزادی ختم کر دی جائے تو اشیائے صرف کی قیمتیں اعتدال پہ آ سکتی ہیں‘ لیکن چند روز قبل گندم، اور کھاد سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی جنابِ وزیر اعظم نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو کھاد کی صنعت میں استعمال کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کہا تھا کہ کھاد کا بحران مصنوعی قلت کی وجہ سے ہے، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف فوری کریک ڈاؤن اور انسدادِ منافع خوری و ذخیرہ اندوزی قوانین کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ یہ نئی ہدایت جاری کرنے سے لگتا ہے کہ متعلقہ وزارتوں اور اداروں نے ان کی پہلی ہدایت پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھا‘ کیونکہ نہ تو مہنگائی کم ہونے میں آ رہی ہے اور نہ ہی کھادوں کی فراہمی کی صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے۔ لہٰذا جب تک سربراہ حکومت معاملات کی خود نگرانی نہیں کریں گے‘ یقینی نہیں کہ ان کی اس نئی ہدایت پر بھی عمل ہو گا۔ جناب وزیر اعظم کے علاوہ حکومتی زعما، ترجمان اور معاونین بھی گاہے گاہے مافیاز، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو اشیا کی قلت کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو حکومت ان مافیاز کے سامنے مکمل بے بس ہے یا پھر حکومت کو سپلائی اینڈ ڈیمانڈ اور مارکیٹ چین کی بنیادی سائنس اور منصوبہ بندی کا ہی علم نہیں کیونکہ گزشتہ سوا تین سالوں سے ہر دوسری سرکاری تقریب میں مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں سے نمٹنے کا عندیہ دیا جاتا ہے اور پھر معاملہ ٹھپ ہو جاتا ہے۔ مافیاز مسلسل دندناتے پھرتے ہیں اور عوام بدستور ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہتے ہیں۔ مضطرب عوامی حلقوں کی جانب سے مسلسل یہ سوال دہرایا جا رہا ہے کہ اگر نصف سے زائد مدتِ اقتدار مکمل ہو جانے کے بعد بھی مسائل ہر شعبے میں تقریباً جوںکے توں ہیں تو ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ کیا ہوا؟ سوا تین برس بعد بھی اگر جنابِ وزیر اعظم ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر شاکی ہیں تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر مافیاز آج بھی سسٹم کی جڑیں چاٹ رہے ہیں اور قانون کی عمل داری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو اب تک حکومت کیا کرتی رہی ہے؟ وہ ان مافیاز کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے حوالے سے کیوں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر سکی؟ ویسے یہ ذخیرہ اندوزوں، نا جائز منافع خوروں اور مافیاز کی اصطلاحات موجودہ دور میں اس کثرت سے استعمال ہوئی ہیں کہ اب ان کا مفہوم بھی پامال ہو چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز جیسی غیر مرئی چیزوں کو قرار دینے کا آسان نسخہ تلاش کر لیا ہے تاکہ عوام کو بہلایا جا سکے اور حکومتی نااہلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تلخیوں سے ان کا دھیان بٹایا جا سکے۔ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں تیل کی کھپت میں نمایاں کمی آئی اور تیل کی قیمتیں تاریخی حد تک کم ہوئیں‘ اس کے باوجود ملک میں تیل کا بحران پیدا ہو گیا۔ حکومت نے پٹرول کی اس کمیابی پر ’مافیا‘ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس کی ذمہ داری بھی مافیاز کے سر تھوپی گئی۔ گندم، آٹے اور چینی کی قلت و قیمتوں میں بے تحاشا اضافے پر بھی یہی حکومتی روش دیکھنے کو ملی۔ اب کھاد کے حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ عوام جس مسئلے سے بھی دوچار ہوں‘ حکومت کی نظر میں اس کا ذمہ دار کوئی نہ کوئی مافیا ہے؛ تاہم یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ مافیاز کون ہیں اور ان کی بیخ کنی کی خاطر حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ چینی کے بحران کے ذمہ داروں کے نام سامنے آئے تھے،

تیل کے بحران پر بھی انکوائری کمیشن بٹھایا گیا تھا، گندم کی قلت اور ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کی بھی تحقیقات کرائی گئی تھیں مگر سوا تین سال گزر جانے کے بعد بھی حکومت مافیا نامی اس غیر مرئی وائرس کو کنٹرول نہیں کر سکی‘ جو بقول وزیر اعظم‘ حکومت کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ حکومت آئے دن مافیاز کی شکایت کرتی ہے‘ مگر سوال وہی ہے کہ کیا یہ مافیاز ریاست کی گرفت سے باہر ہیں؟ گزشتہ برس اگست میں حکومت نے ٹائیگر فورس‘ جس کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں‘ کو یہ اضافی ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ مارکیٹ مافیاز اور اشیائے صرف کی قیمتوں پر بھی نظر رکھے‘ اس کے باوجود آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہوا اور شدت اختیار کرتا گیا۔ حکومت متعدد بار مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ’’اعلانِ جنگ‘‘ کر چکی ہے مگر ہر اعلان کے بعد یہ مافیا مزید طاقت ور ہو کر کسی نئے روپ میں سامنے آ کر حکومتی رٹ کو للکارتے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ حکومت کو اب زبانی دعووں سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے! 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement