اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معیشت پربے یقینی کے بادل

 پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی‘ چند گھنٹوں میں دو ہزار پوائنٹس کی گراوٹ‘ ڈالر کا تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ جانا‘ ماہانہ بنیادوں پر بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ جو قریب دو برس کا ریکارڈ توڑ چکی ہے‘ اور تجارتی خسارہ‘ جو گزشتہ ماہ 162فیصد تک پہنچ چکا تھا‘حکومتی معاشی پالیسیوں کی قلعی کھول رہا ہے۔ معیشت اعتماد اور اطمینان کی فضا میں پنپ سکتی ہے اور اس کے لیے حقیقی اقدامات درکار ہوتے ہیںمگر یہاں اس کی تشویشناک قلت ہے اورفقط طلاقتِ زبان اور دعووں‘ دلیلوں پر کوئی کہاں تک اعتبار کرے‘عملی اور حقیقی طور پر بھی تو کچھ دکھائی دینا چاہیے۔ جب اس جانب کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی تو مایوسی دوچند ہو جاتی ہے۔ حکومت کے پاس شاید تسلیوں کے سوا دینے کے لیے کچھ نہیںمگریہ صورتحال ایسی دلدل ثابت ہو رہی ہے جس میں قومی معیشت بتدریج دھنستی جا رہی ہے۔آئے روز کوئی ایک واقعہ اس بحرانی صورتحال کا حاشیہ بن جاتا ہے‘ گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ کی اچانک اور غیر متوقع گراوٹ خسارے کے اس منظرپر چھائی رہی‘ جو دن ڈیڑھ بجے تک سرمایہ کاروں کے کم ازکم تین سو ارب روپے چاٹ چکی تھی۔اس کے اثرات ملکی کرنسی پر شدید دباؤ کی صورت میں بھی سامنے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر پچھلے دوماہ کے دوران سنبھل نہیں سکی۔ کرنسی کی قدر میں گراوٹ ایک الگ بات ہے‘ یہاں قدر میں استحکام کی صورت بھی نظر نہیں آتی۔ یہ معاشی بے یقینی کی واضح علامت ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بے قابو گراوٹ سے بڑی بے یقینی کیا ہو سکتی ہے ؛چنانچہ اس کے اثرات ڈالر کی شرح مبادلہ پر بھی سامنے آئے اور اوپن مارکیٹ میں یہ 178 روپے تک پہنچ گیا۔

ماہرین تجارتی خسارے‘ توانائی کے بحران اورصنعتی شعبے میں بے چینی کو اس بے یقینی کا سبب قرار دیتے ہیں جبکہ کورونا کے نئے خطرات‘ یورپی مارکیٹ میں جن کے اثرات واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ ان عوامل میں ایک نیا اضافہ بن رہے ہیں۔ داخلی سطح پر مہنگائی کا منظر نامہ بھی معاشی بحران کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے اور گزشتہ ماہ کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اکتوبر کی نسبت مہنگائی مجموعی طور پر 11.5 فیصد بڑھ گئی۔یوں نومبر کے دوران مہنگائی نے گزشتہ 21ماہ کا ریکارڈ توڑ دیا۔ مہنگائی میں مجموعی اضافہ چیدہ چیدہ ضروری اور اہم اشیا کی قیمتوں کو سامنے رکھ کر اخذ کیا جاتا ہے‘ اس فارمولے میں یہ بات کبھی ظاہر نہیں ہوتی کہ جو اشیا زیادہ اہم اور ضروری ہیں‘ اُن کی قیمتوں میں اضافہ کس قدر ہوا ہے؛چنانچہ ماہرین جو تجزیے کرتے ہیں اُس میں عام شہری اور عام صارف کا کیا حشر ہوا‘ یہ نمایاں نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ماہر اور حکومتی ترجمان ہمیں خطے کی خبریں سناتے اور یہ بتاتے ہیںکہ ضروری اشیائے صرف کی ’’ٹوکری‘‘ ہمارے ہاں اب بھی سستی ہے اور جنوبی ایشیا میں مہنگی۔ اس میں شک نہیں کہ مہنگائی ایک عالمی حقیقت ہے‘ اس میں بھی شک نہیں کہ جب سے دنیا کورونا کی لپیٹ میں آئی ہے مہنگائی پوری دنیا کیلئے ایک مسئلہ بن چکی ہے۔وبا کی وجہ سے ہر ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے مگر ہماری معیشت جو پہلے ہی ناتواں تھی، وبا کے حملے کے بعد ڈھیر ہونے کو ہے۔قرضوں پر گزارا ہے۔ قرض مل جاتا ہے تو حکمران ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں۔ ہمارے ہاںبے تحاشا مہنگائی کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ اوّل، ہماری کرنسی کی کمزوری اور دوم، درآمدات پر انحصار۔ کمزور کرنسی جب درآمدات میں ڈھلتی ہے تو مہنگائی اس کے ایک نتیجے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے شروع دنوں میں درآمدات اور درآمدی خسارہ کم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا‘ روپے کی قدر میں کمی کا بھی یہی جواز پیش کیا گیا کہ اس سے درآمدی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی مگر یہاں بھی حکومت کی کارکردگی زبانی دعووں کے برعکس نظر آتی ہے۔ درآمدی خسارے میں کس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کے لیے یہی دیکھ لیں کہ اس سال نومبر کا درآمدی بل گزشتہ برس کے اسی ماہ کے مقابل میں دوگنا تھا۔مگر یہ کسی ایک مہینے کی بات نہیں‘ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں مجموعی تجارتی خسارہ گزشتہ برس کے پہلے پانچ ماہ کے مقابلے میں 117 فیصد سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔اگرچہ اس دوران برآمدات میں بھی کچھ اضافہ ہوا مگر درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کی نمو معمولی ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم بدستور ایک کنزیومر معاشرہ ہیں اور درآمدی معیشت۔ مگر اس صورتحال میں یہ بھی واضح ہے کہ حکومت اپنے اس معاشی دعوے کو بھی عملی صورت نہیں دے سکی۔ قرضوں پر گزارے اور قرضوں کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے نڈھال ہو جانے والی معیشت کو اس صورتحال نے دہری اذیت سے دوچار کیا ہے۔ حکومت کے معاشی تجربات نتائج دکھانے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے اور ملکی معیشت پربے یقینی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں اوربد قسمتی یہ کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کورونا کے ایک نئے وائرس کے خطرے سے دوچار ہے۔ ہم نہیں جانتے کے آگے کیا ہو گا۔ حالات اگر پابندیوں کی طرف گئے تو اس کے اثرات ہمارے لیے خاص طور پر ناگفتہ بہ ہوں گے۔یہ حالات وطن کا درد رکھنے والے حلقوں کے لیے چیلنج ہیں کہ اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو ملک کو اس معاشی ابتری کی دلدل سے نکالنے کیلئے بروئے کار لائیں۔ایسے حالات وسیع قومی اتفاقِ رائے کے متقاضی ہوتے ہیں‘ جہاں تمام متعلقہ فریق سر جوڑکر بیٹھتے اور مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement