اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

اپنے حصے کی شمع

وزیر اعظم عمران خان نے سیالکوٹ میں مقتول سری لنکن منیجر پریانتھا دیاوادنا کمارا کی ڈھال بن کر انہیں مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کرنے والے شہری ملک عدنان کو بہادری پر تمغۂ شجاعت سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شہری کی جرأت اور بہادری پر اسے سلام پیش کرتے ہوئے جنابِ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں پوری قوم کی جانب سے ملک عدنان کی بہادری اور اخلاقی جرأت کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے سیالکوٹ میں اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے پریانتھا دیاوادنا کو پناہ دینے اور خود کو ڈھال بنا کر انہیں جنونی جتھے سے بچانے کی پوری کوشش کی۔ حکومت کا یہ فیصلہ صائب ہے۔ جرأت و بہادری کی حوصلہ افزائی مزید دلیری کو جنم دیتی ہے اور کسی مظلوم کے لیے آواز اٹھانا قدرے آسان ہو جاتاہے۔ یاد رہے کہ جمعہ کی صبح سیالکوٹ میں پیش آنے والے دلخراش واقعے کے جہاں نہایت منفی اور کریہہ پہلو سامنے آئے‘ وہاں چند شہریوں کی جانب سے بپھرے ہوئے ہجوم کو روکنے کی اپنی سی کوشش کرنے والے انفرادی کرداروں کی چند مستحسن وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس افراتفری کے ماحول میں دو افراد ایسے بھی تھے‘ جو سسکتی انسانیت کو بچانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ایسی کوشش کرنے والے ہر فرد کو انعام ملنا چاہیے اور اس کے اس کارنامے کی تحسین کی جانی چاہیے۔

منظر عام پر آنے والی ایک وڈیو میں گارمنٹس فیکٹری کے عہدے دار ملک عدنان کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ پریانتھا غیر مسلم ہے‘ اسے نہیں معلوم کہ مذکورہ پوسٹر پر کیا لکھا تھا۔ اس کے علاوہ فیکٹری عہدے دار نے ورکرز کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ پریانتھا کو فیکٹری سے نکال دیں گے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔ اگرچہ سمجھانے کے باوجود مشتعل ہجوم نے اپنی سی کی؛ تاہم مذکورہ شخص کی کاوشوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور معاشرے میں ایسے رجحان کو بڑھاوا دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے کرداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع جلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ معاشرہ ایسے ہی شوریدہ سروں کے دم پر قائم رہتا ہے جو نتائج سے بے پروا اپنے حصے کا کام پوری تندہی سے انجام دیتے ہیں‘ اس پرندے کی مانند جو آتشِ نمرود کو بجھانے کے لیے اس نیت سے اپنی چونچ میں پانی بھر کے لاتا ہے کہ اس کا شمار ان میں ہو جنہوں نے اپنے تئیں آگ کو بجھانے کی کوشش کی تھی۔ خود غرضی اور نفسا نفسی کے اس عالم میں ایسے لوگوں کا دم یقینا غنیمت ہے جو جذبات کی رو میں بہہ جانے کے بجائے حقائق کو پرکھ کر فیصلہ کرتے اور ہجوم کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ خداوندِ متعال کا صریح فیصلہ ہے کہ ’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’کسی سے کسی دوسرے کے اعمال کے بارے میں باز پرس نہ ہو گی‘‘۔ روزِ محشر ہر کسی کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے‘ کوئی جتھا‘ کوئی ہجوم یا لوگوں کی اکثریت کیا طرزِ عمل اختیار کرتی ہے‘ کس ڈگر کو اپناتی ہے‘ یہ جواز قطعاً قابلِ قبول نہ ہو گا۔ جیسے ہر شر میں خیر کا کوئی پہلو پنہاں ہوتا ہے‘ ویسے ہی ہر سانحہ سے کوئی مثبت سبق بھی کشید کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ دیدۂ بینا ہو۔ کسی المیے یا سانحے کا سب سے بڑا حاصل یہی ہے کہ ماضی پر پچھتانے یا لکیر پیٹنے کے بجائے اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے اور سیالکوٹ کے دل فگار سانحے کا سبق یہ ہے کہ جذباتیت اور اشتعال کا شکار ہونے کے بجائے کھلے دل و دماغ کو بروئے کار لایا جائے‘ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط بر سر عام کہا جائے اور کسی بھی صورت میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور اس بارے میں سوچ سمجھ کر اور محتاط انداز میں بات کی جانی چاہیے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے توہینِ مذہب کی کوئی بھی شکل کسی بھی حوالے سے قابلِ قبول نہیں ہو سکتی‘ لیکن اس معاملے میں بھی احتیاط کا دامن تھامنا ہی دانائی ہے کہ اس حوالے سے وضع کیے گئے قوانین کا سہارا لیا جائے اورپولیس سے رجوع کیا جائے یا نظام عدل کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ یوں لوگوں کو جمع کرکے کسی کو بھی مطعون کرنا اور پھر خود ہی فیصلہ کر ڈالنا مناسب نہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب اور کسی بھی ملک کا کوئی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کاش کہ اکٹھے ہونے والے گروہ نے ملک عدنان اور دو ایک دوسرے افراد کی بات سن لی ہوتی تو آج ہمارا ملک عالمی برادری کے سامنے یوں شرمسار کھڑا نہ ہوتا۔ اس افسوس ناک سانحے میں امید کا پہلو یہ ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے حصے کی شمع جلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ یقین ہی دراصل وہ امید ہے جس کے سہارے آگے بڑھا جا سکتا ہے اور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اب بھی امن‘ آشتی‘ بردباری‘ تحمل اور برداشت والے معاشرے کی تشکیل ممکن ہے‘ جس میں سب مامون رہ سکیں اور سبھی کو ان کے سبھی انسانی حقوق میسر آئیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ امید کے اس دیے‘ جرأت کی اس شمع کو بجھنے نہ دیں!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement