قومی ذہنیت کی تبدیلی:سماجی اصلاح کی ضرورت
ملک کی مجموعی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز بلائے گئے سول ملٹری قیادت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے غیر ملکی فیکٹری منیجر کی ہلاکت جیسے واقعات کی روک تھام اور ملوث عناصر کو سخت سزائیں یقینی بنانے کیلئے جامع حکمت عملی پر عمل کیا جائے گا ۔ اس سے قبل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے سیالکوٹ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہمیں لوگوں کی ذہنیت بدلنی ہے جس کیلئے پورے معاشرے کا تعاون چاہیے۔ سماجی سطح پرانتہا پسندی اجتماعی زندگی اور قومی ہم آہنگی کیلئے غیر معمولی خطرہ ہے ‘ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو دردناک واقعہ اگلے روز سیالکوٹ میں پیش آیا ‘اس سے ہمیں اپنے ہاں اس رویے کا احساس ہوتا ہے کہ کیسے چند لمحوں میں لوگوں کا ایک ہجوم کسی جیتی جاگتی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔طیش کی یہ کیفیت انفرادی سطح پر بھی اسی صورت میں موجود ہے جس کا اظہار آئے روز معمولی بات پر جانی و مالی نقصانات کے واقعات کی صورت میں دیکھنے میں آتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی غصے کی یہ کیفیت وطن عزیز میں احساسِ تحفظ اور اعتماد کے لیے شدید خوفناک صورت پیدا کر رہی ہے۔صبر‘ تحمل‘ رحم دلی‘ احترام اور انصاف پسندی کی جو صفات کسی سماج میں توازن قائم کرنے کیلئے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں ہمیں اجتماعی سطح پر ان کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ چھوٹے پہ شفقت‘ بڑے کا ادب‘ کمزور کی مدد ‘ایسی صفات ہیں جو ہمارے ہاں بچوں کونصاب میں پڑھائی جاتی ہیں مگر ان تعلیمات سے سماج کس حد تک اثر حاصل کر رہا ہے وہ آئے روز کے اندوہناک جرائم کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ مجموعی طور پر معاصر دنیا میں کوئی بھی معاشرہ مثالی نہیں؛تاہم بطور سماج اس دور کے معیار پہ ہمارا شمار بہت نچلی سطحوں پر ہوتا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ اعتراف ہے کہ خواتین‘ بچوں ‘اقلیتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ سلوک کے لحاظ سے ہمارا شمار بہت پسماندہ طبقات میں ہے۔ اس صورتحال نے سماجی بے سکونی اور عدم اعتماد میں بھی اضافہ کیا ہے اور لوگ بتدریج زیادہ خوف میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں یہ ماحول لاتعلقی‘ ذہنی دوری اور ہمدردی میں کمی کا سبب ہے اور قومی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ انسانی سماج کی بنیاد ہی ایک دوسرے سے قربت پر ہے لیکن ہمارے سماجی مسائل ہمیں بتدریج ایک دوسرے سے لاتعلق کر رہے ہیں۔ انسانی ہمدردی کے کاموں میں وہ جذباتی اکٹھ نظر نہیں آتا جو بدقسمتی سے تخریبی سرگرمیوں میں نظر آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں بہت عطیات دینے کو ہمدردی کے بڑے شواہد کے طور پر لیا جاتا ہے ‘ بے شک مالی اعانت بہت بڑی نیکی اور ہمدردی کا بڑا ثبوت ہے مگر سماج سطح پر مالی تعاون ہی کافی نہیں ‘ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی‘ اعتبار‘ ایثار اور دکھ درد کو محسوس کرنا بھی ضروری ہے۔
صرف مالی عطیات اس کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔ سیالکوٹ کے واقعے نے سوچ کی جس انتہا پسندی کی نشاندہی کی ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں اسی سماجی بے حسی ‘بے مروتی اور بے لحاظی کا پر تو ہے۔ ایک جیسے سوچ کے لوگ اکٹھے ہو کر ایک جیسے گروپ بناتے ہیں؛ چنانچہ ہم اگر پُرتشدد ہجوم اور انتہا پسند جتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں تو انفرادی سطح پر کام کی ضرورت ہے تا کہ رحم دل‘ انصاف پسند اور انسانی جذبات سے سرشار معاشرہ پیدا کریں نہ کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کا ہجوم۔اس کے لیے ایسی اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے جو لوگوں کو ان کی سماجی ذمہ داریوں اور اوصاف کا احساس دلاسکے۔ دینی تعلیمات کے ان پہلوؤں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے انفرادی سطح پر اس تبدیلی کا کام آسان ہو سکتا ہے جو پاکستان کو اجتماعی سطح پر بہتر سماج دے سکتی ہے۔ یہ کام تعلیمات اور قانون کی حکمرانی کی مدد سے کیا جانا چاہیے‘ تعلیمات جواچھے شہری کی ذمہ داریوں کو اجاگر کریں اور جہاں ان ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی جائے وہاں قانون کی طاقت مؤثر انداز میں بروئے کار نظر آئے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر صرف نصیحت اور تنبیہ سے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے۔ ہمارے ہاں آج جس صورت میں قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس کی بنیاد ماضی کی کوتاہیوں میں ملے گی اور آج جو کوتاہیاں ہیں ان کے اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے لہٰذا حکومت کی ذمہ داری قانون کی عملداری کے حوالے سے بھی اہم ہے۔
نیشنل ایکشن پلان ہمارے پاس طے شدہ نکات کے ایک مجموعے کی صورت میں موجود ہے جو ہمارے بہت سے قومی مسائل ‘ خاص طور پر وہ مسائل جن کا تعلق امن و امان‘ سماجی ہم آہنگی‘ قانون کی حکمرانی جیسے معاملات سے ہے‘ کے حل میں مدد دے سکتا ہے۔ ان نکات کو قومی اصلاح کے رہنما اصولوں کے طور پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے وہ نکات جن پر عمل نہیں ہوا ‘ انہیں ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنا ہو گا ۔ہم قومی سطح پر شدید معاشی بحران سے گزر رہے ہیںاور بہت سے قومی اور انفرادی مسائل کا تعلق بھی انہی معاشی مسائل سے جوڑکر دیکھتے ہیں ‘ مگر معیشت کے فروغ کا سماجی تواز ن اور امن کے احساس سے گہرا تعلق ہے۔ انتہا پسندانہ ذہنیت ‘ لاقانونیت اور بے ہنگم معاشرے معاشی برتری حاصل نہیں کر سکتے؛چنانچہ معاشی ترقی کا خواب اگر دیکھ رہے ہیں تو اس کے لوازمات کو پورا کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ سانحہ سیالکوٹ ہمارے لیے قومی سطح پر آنکھیں کھول دینے والا واقعہ ہے جس سے ہمیں اپنے اجتماعی باطن میں جھانکنے اور اپنی اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے۔