اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

کورونا کی نئی لہر کے بڑھتے ہوئے خدشات

کورونا کی نئی لہر تشویشناک تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور کراچی اس لہر کا سب سے بڑا ہدف نظر آتا ہے جہاں جمعہ کے روز 2800 سے زائد نئے کیسز سامنے آئے۔ اس دوران ملک میں مجموعی نئے کیسز کی تعداد 4286 رہی۔ ایک دن پہلے کی نسبت یہ کیسز 20 فیصد زیادہ تھے۔ اس وقت تک ملک میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح آٹھ فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ کورونا کس تیزی سے پھیل رہا ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک ماہ کے دوران مثبت کیسز کی شرح میں نو گنا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ یومیہ نئے کیسز کی تعداد گزشتہ برس اگست کی تعداد کے برابر ہو چکی ہے۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ کیسز کی تعداد میں ہر روز بڑی شرح کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ ملک میں کورونا کی ایک اور لہر کے واضح اثرات ہیں‘ مگر کورونا کی حالیہ لہر کی واضح پیش گوئی کے باوجود حکومت کی جانب سے مدافعتی اقدامات کے معاملے میں غفلت یا سست روی نظر آتی ہے‘ جو باعثِ تشویش ہے۔ کووڈ کیسز کے شماریات وبا کی لہر میں جو تیزی دکھا رہے ہیں بچاؤ کی حکمت عملی اس کے مقابلے میں صفر نظر آتی ہے۔ بچاؤ کی حکمت عملی سے مراد لاک ڈاؤن یا تعلیمی اداروں کی بندش ہی نہیں‘ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے تا کہ لاک ڈاؤن جیسی صورتحال پیدا ہی نہ ہو‘ مگر متعلقہ ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے محسوس ہوتے ہیں اور وبا حیران کن تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ حکومت بظاہر اس اعتماد پر بھروسا کئے بیٹھی ہے کہ ماضی میں اس کی کورونا حکمت عملی بڑی کامیاب رہی اور دنیا میں اس کی تعریف کی گئی‘ مگر یہ اعتماد اگر احساس ذمہ داری میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ہمارے سامنے بھارت اور برازیل وغیرہ کی مثالیں ہیں جنہیں گزشتہ برس اپنی خوش فہمی کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑے۔ ویکسی نیشن کا بھروسا بھی کافی نہیں کیونکہ اومیکرون قسم کا وائرس ویکسین کے خلاف قوت مدافعت رکھتا ہے۔ اسی ہفتے عالمی ادارہ صحت کے ٹیکنیکل گروپ نے یہ کہا ہے کہ اومیکرون اور کورونا ویکسین کی مستقبل میں ممکنہ صورتوں کے خلاف ویکسین کو مؤثر بنانے کے لیے کورونا ویکسینز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ سب سے پہلے تو ہمیں یہ مان کر چلنا ہو گا کہ جو کورونا ویکسین لگ چکی ہے‘ وہ اپنی بہتر صلاحیتوں کے باوجود یقینی تحفظ نہیں ہے‘ اسی لیے حکومت بُوسٹر ویکسین کی مہم بھی شروع کئے ہوئے ہے؛ البتہ یہ مہم ابھی تک عوام کی توجہ حاصل نہیں کر سکی؛ اگرچہ ایک اچھا فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ بوسٹر خوراک کے لیے عمر کی حد جو پہلے 30 برس تھی این سی او سی کی جانب سے اسے اب 18 برس کر دیا گیا ہے؛ تاہم بوسٹر خوراک کے لیے تکنیکی طور پر اہل افراد کو اس کی اہمیت کا احساس دلانے اور تیسرا ٹیکہ لگانے کی جانب متوجہ کرنے کے لیے حکومت کو دھیان دینا ہو گا۔

ماہرین پُر اعتماد ہیں کہ ویکسین کی بوسٹر خوراک وبا کے سماجی پھیلاؤ کی رفتار کو کافی حد تک کم کر دے گا۔ اس موقع پر سندھ کی صورتحال کا پیشہ ورانہ جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ درست معلومات حاصل ہو سکیں اور پالیسی بنانے میں حکومت ان سے فائدہ اٹھائے۔ سندھ‘ خاص طور پر کراچی میں کیسز کے پھیلاؤ کے کیا اسباب ہیں‘ وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے اس بارے کچھ واضح نہیں کیا جا رہا اور یہ بھی معلوم نہیں کہ متاثر ہونے والے نئے مریضوں میں کتنے ایسے ہیں جو کورونا ویکسین کی دو خوراکیں حاصل کر چکے ہیں۔ کراچی کی صورت حال کا درست جائزہ ملک کے دیگر حصوں کو بچانے کے لیے مدد گار ہو سکتا ہے۔ بہرحال بوسٹر ڈوز کے لیے حکومت کو اقدامات تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک اس سلسلے میں کام کی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اسی طرح ایس او پیز پر عمل یقینی بنانے کی جانب بھی کوئی توجہ نظر نہیں آتی۔ حکومت کو چاہیے کہ باقاعدہ سرکاری احکامات کے ذریعے کورونا بچاؤ کے اقدامات پر عمل یقینی بنائے۔ پُر ہجوم مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ‘ ریل گاڑیوں اور بین الاضلاعی بسوں میں ماسک کے استعمال کی پابندی صرف گزشتہ برسوں کے لگے ہوئے حکم ناموں تک محدود رہ گئی ہے‘ یہی حالات کورونا ویکسین سرٹیفکیٹ کے ہیں۔ پُر ہجوم مقامات پر سماجی فاصلے کی روایت بھی باقی نہیں رہی‘ مگر حالات ایسے نہیں کہ اس جانب مزید عدم توجہی اختیار کی جائے۔

اگر کچھ وقت مزید تاخیر کی گئی تو یہ خارج از امکان نہیں کہ وبا کی لہر کا پھیلاؤ لاک ڈاؤن کا متقاضی ہو جائے۔ سمجھداری کا تقاضا ہے کہ بروقت اقدامات کئے جائیں اور اس خطرے کو بے جا خوش فہمی میں معمولی نہ لیا جائے۔ کورونا کی وبا کے طبی اثرات تو اپنی جگہ ہیں مگر وبا کی ایک معاشی قیمت بھی ہوتی ہے۔ عوام کی معاشی حالت پہلے ہی پامال ہے‘ اگر خدانخواستہ وبا کی شدت سے نوبت لاک ڈاؤن تک آ  گئی تو یہ عوامی معیشت کے لیے بے پناہ نقصان دہ ہو گا۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس خطرے کے اس تناظر سے لوگوں کو آگاہ کرے۔ بازاروں کی رونقیں بحال رہیں کیونکہ یہ معاشی تحرک کی ضرورت ہے مگر گاہک اور دکاندار اگر ماسک کا استعمال یقینی بنا لیں تو خود کو اور دوسروں کو بڑی حد تک بچا سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement