اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کے بڑھتے خطرات

 لاہور کے مصروف کاروباری علاقے انار کلی کے قریب بم دھماکے سے یہ اندیشہ تقویت اختیار کرتا ہے کہ ملک کے شہری علاقے جو پچھلے کچھ عرصے سے دہشتگردی کے خطرے سے محفوظ قرار پا چکے تھے‘ اب عدم تحفظ کے خطرے سے دوچار ہیں۔ گزشتہ روز کا واقعہ‘ جس میں کم از کم تین شہری جاں بحق اور پچیس سے زائد زخمی ہو گئے‘ حالیہ دنوں دہشتگردی کا کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں لگتا۔ پچھلے کچھ دنوں سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ایسے افسوسناک واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب اسلام آباد میں ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں کو دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے شہید کیا۔ اس دوران قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا کے بعض دیگر علاقوں سے اکا دُکا واقعات کی خبریں آ تی رہیں۔ ان واقعات کو اگر سلسلہ وار دیکھا جائے تویہ سبھی ایک سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اسلام آباد میں دہشتگردی کے اس واقعے کے بعد ایسے مزید واقعات سے خبردار کر چکے ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے بھی صوبے میں دہشتگردی کا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز کا واقعہ وزیر داخلہ اور صوبائی حکومت کے الرٹ کو درست ثابت کرتا ہے؛ تاہم اس کے ساتھ کئی سوال بھی پیدا ہوتے ہیں‘ مثلاً یہ کہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ دہشتگردی کے متعدد واقعات کو بروقت ناکام بناکر قومی سلامتی اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کی گئی‘ مگر پچھلے کچھ عرصے سے ایسے واقعات کی خبریں نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ دہشتگردی کے خطرات میں واقعتاً کمی نظر نہیں آتی۔ ملک میں سکیورٹی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک غیرسرکاری ادارے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک میں دہشتگردی کے 207 واقعات ہوئے جو ایک برس پہلے کے مقابلے میں 42 فیصد زیادہ تھے۔ گزشتہ برس دہشتگردانہ حملوں میں لقمۂ اجل بننے والے افراد کی تعداد بھی ایک برس پہلے کے مقابلے میں 52 زیادہ تھی۔

دہشتگردی کے واقعات کا تقابلی جائزہ لینے سے یہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے کہ دہشتگردی کے خطرات میں کمی آرہی ہے۔ کم از کم گزشتہ برس سے تو اس میں اضافے کا رجحان ملتا ہے۔ قومی سلامتی کے ذمہ داران کیلئے ان حالات میں چوکنا رہنا اشد ضروری ہے۔ یہ ضرورت اب قومی سلامتی کا ایک لازمی تقاضا نظر آتی ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ ملک دشمنوں کے خلاف جس دم خم کے ساتھ پچھلے کئی برس سے کارروائیاں جاری ہیں‘ کارکردگی کے اس معیار کو نیچے نہ آنے دیا جائے۔ یہ کام بہترین انداز میں کس طرح انجام دیا جا سکتا ہے یا وقت کے ساتھ سکیورٹی حکمت عملی میں کیا تبدیلیاں ضروری ہیں‘ سکیورٹی ادارے اپنی ان پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کی دھمکی بلاشبہ سکیورٹی کے نئے چیلنجز کا سبب ہے‘ اگرچہ اس دہشتگرد گروہ کی جنگ بندی بھی یقینی نہیں تھی اور اس دوران بھی اس سے جڑے عناصر دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے؛ تاہم جنگ بندی کے خاتمے کا رسمی اعلان سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ حالیہ دنوں دہشتگردی کے سلسلہ وار واقعات نے یہ ثابت کیا ہے؛ چنانچہ فی الفور سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر بنانے پر کام کی ضرورت ہے۔

گزشتہ روز لاہور میں ہونے والے دھماکے سے یہ واضح ہو چکا کہ دہشتگردی کا خطرہ اب ملک کے بڑے شہروں میں پہلے سے زیادہ ہے۔ دو‘ تین روز پہلے اعلیٰ سطح پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا وہ ہوبہو پورے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان خطرات کو معمولی لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ لاہور میں دہشتگردی کا واقعہ سکیورٹی حکام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بڑے شہروں میں سکیورٹی کو فی الفور بڑھا کر اور خفیہ نیٹ ورک کو مضبوط کرکے دہشتگردی کے ممکنہ خطرات سے نمٹا جاسکتا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اداروں نے اپنی طویل جدوجہد کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے‘ جبکہ دہشتگردوں کے خلاف جاری جدوجہد نے ملک دشمن عناصر کو ہر لحاظ سے کمزور کیا ہے‘ اس لیے یہ اعتماد موجود ہے کہ دہشتگرد اگرچہ اب بھی اکا دکا واقعات کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ریاست کی صلاحیت اور کپیسٹی بتدریج بہتر ہوئی ہے۔

ماضی کے مقابلے میں سکیورٹی اداروں کے پاس اب زیادہ تجربہ‘ آپریشنل صلاحیت اور نگرانی کے بہتر وسائل موجود ہیں۔ سیف سیٹیز کا نظام اس حوالے سے قابل ذکر ہے جس کی مدد سے گزشتہ برسوں میں دہشتگردی کے کچھ بڑے کیسز کو ٹریس کرنے میں مدد ملی۔ شہر میں سکیورٹی کیمروں کی موجودگی شہری تحفظ کا ایک بڑا ذریعہ ہے؛ چنانچہ ان حالات میںاس نظام کو بھی ایک دفعہ پھر دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پچھلے کچھ عرصے میں لاہور میں سیف سٹی کے کیمروں کی خرابی کی کئی خبریں آچکی ہیں۔ اگر یہ نظام اب بھی بہتر اور پوری صلاحیت کے مطابق چالو نہیں تو یہ ایک بڑی کوتاہی ہے۔

اربوں روپے خرچ کرکے سسٹم لگا لیا مگر چند لاکھ روپے اس کی بحالی اور بہتری پر خرچ نہ کرنا باعثِ تعجب ہے۔ تخریب کاری کے واقعات محفوظ پاکستان کے تشخص کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ ماضی قریب میں دہشتگردوں کو جرأت سے شکست دے کر ملک میں امن قائم کیا گیا اور شہروں میں کھویا ہوا احساسِ تحفظ لوٹ کر آیا۔ اب تازہ واقعات اور دہشتگردوں کی گیدڑ بھبھکیاں شہریوں کیلئے نئی تشویش کا سبب بن رہی ہیں۔ سکیورٹی کے ان خطرات کے معاشی اثرات بھی ہوں گے‘ اس لیے قومی سلامتی کے تحفظ میں کسی قسم کی فروگزاشت کی گنجائش نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement