اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

زراعت اور ترجیحات؟

وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ سید فخر امام نے اگلے روز ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان کی قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے زرعی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی کے کئی منصوبوں کا ذکر کیا۔ مثال کے طور پر کسان کارڈ‘ زرعی قرضے‘ سبسڈی والے زرعی آلات‘ ہائبرڈ بیجوں کی تیاری اور زرعی میکنائزیشن وغیرہ۔ زرعی شعبے کے ذمہ داران کے اس اعلیٰ ترین اجلاس میں کی گئی یہ باتیں خوش کن ہیں مگر زمینی حقیقتوں اور ان مبینہ منصوبوں میں کافی بُعد ہے۔

کھادوں کی بلیک میں فروخت معمول بن چکا ہے اور گندم کے کاشتکار اس سے بطور خاص متاثر ہورہے ہیں۔ جو حکومت کاشتکاروں کو اپنی پیدا وار حکماً سرکار کے ہاں فروخت کرنے کا پابند کرتی ہے‘ وہ یہ احساس کیوں نہیں کر رہی کہ فصل اگانے کیلئے کھاد ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اسی طرح کسان کارڈ‘ جسے کسانوں کیلئے سہولت کا یقینی ذریعہ بننا چاہیے تھا‘ اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام ہے۔

زرعی قرضوں کی سہولت کی جہاں تک بات ہے تو کمرشل بینک قرضے دینے سے انکار نہیں کرتے مگر دیکھنا یہ ہے کہ زراعت کیلئے بطورِ خاص ان قرضوں میں کیا ہے؟ کیا یہ مارکیٹ ریٹ سے سستے اور آسان ہیں اور کاشتکاروں کو اس سرمایہ کاری کی سوجھ بوجھ ہے؟ اگر حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کر رہی تو زرعی قرضے کاشتکاروں کو صرف زیر بار کررہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement