معاشی نمو کا افسانہ
نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ مالی سال معاشی شرح نمو میں 5.37 فیصد اضافہ ہوا‘ جو گزشتہ تین سال کا سب سے بڑا اضافہ تھا۔ اس دوران جی ڈی پی میں 3.9 فیصد اضافہ ہوا‘ فی کس آمدنی 1543 ڈالر کے پہلے اندازوں سے بڑھ کر 1666 ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ ملکی معیشت کا حجم 296 ارب ڈالر کے اندازوں سے بڑھ کر 346.76 ارب ڈالر ہوگیا۔ زراعت میں شرح نمو 3.48 فیصد‘ صنعتکاری میں 7.7 فیصد اور سروسز کے شعبے میں شرح نمو 5.70 فیصد رہی۔
وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی اس معاشی کارکردگی پر مبارکباد کا بیان جاری کیا جبکہ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھاکہ گزشتہ 14 برسوں میں یہ دوسری سب سے بڑی نمو تھی۔ انہوں نے گزشہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں صنعتی ترقی کواس نمو کی وجہ قرار دیا۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال کی شرح نمو کے اعدادوشمار کو دوسری بار تبدیل کیا ہے۔ پچھلے بجٹ میں شرح نمو کا تخمینہ 2.3 فیصد تھا؛ تاہم وزارت منصوبہ بندی نے مئی کے آخر میں 3.9 فیصد کا تخمینہ پیش کردیا جوورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اندازوں سے تقریباً دُگنا تھا۔ حکومت کے اس تخمینے پر اُس وقت بھی سوال اٹھائے گئے اور کئی روز تک اس پر سیاسی جماعتوں میں بحث مباحثہ چلتا تھا مگر 5.37 فیصد شرح نمو کا تخمینہ سابق تخمینے کو بھی بہت پیچھے چھوڑگیا ہے۔
حکومت کے ادارے یہ سب کیسے کررہے ہیں اور ان شماریات میں حقیقت کتنی ہے اس سے قطع نظر عام آدمی کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو معیشت کی بہتری کا مطلب وسائل‘ آمدنی اور قوت خرید میں اضافہ اور عمومی خوشحالی ہے‘ مگر حیران کن طور پر جس سال کی شرح نمو کے اعداد کو حکومت دوسری بار تبدیل کررہی ہے‘ یہ سال عوام میں بلند ترین افراط زر کی وجہ سے یاد رکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں مہنگائی کو ساڑھے چھ فیصد تک رکھنے کا ہدف تھا مگر مہنگائی حکومتی اندازوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نو فیصد تک جا پہنچی۔ سوال یہ ہے کہ اگر معاشی نمو کی شرح ایسی محیرالعقول تھی اور زراعت‘ صنعت اور خدمات کے شعبے ایسی تیزی دکھا رہے تھے تواس کے اثرات عام آدمی کی زندگی پرکیوں نظر نہیں آئے؟ اگر معاشی نمو کی صورتیں موجود تھیں تو ریونیو بڑھانے کیلئے حکومت کو عام ضروریاتِ زندگی اور توانائی پراضافی ٹیکس عائد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت کی جانب سے عائد کردہ اضافی ٹیکس اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا اہم سبب ہیں۔
ٹیکسوں کا بوجھ کچھ کم کیا جائے تو پٹرول‘ ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی آ سکتی ہے‘ مگر حکومت مسلسل اور ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں میں اضافہ کرکے متوسط اور نچلے طبقۂ آمدن کے لوگوں کی اذیت مسلسل بڑھا رہی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کی اکثریتی آبادی متوسط اور نچلے طبقۂ آمدن کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ طبقے معیشت کی ڈرائیونگ فورس بنتے ہیں۔ اگر ان کی قوتِ خرید بڑھتی ہے تو پیداوار کی کھپت میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ جس سے صنعتی پیداوار اور تجارتی سرگرمیوں کی رفتار تیز ہوتی اور معیشت کو جِلا ملتی ہے‘ مگر گزشتہ تین برس سے پاکستان میںمعاشی بدحالی کا جو سلسلہ چلا ہے اور وسائل آمدن بتدریج گھٹنا شروع ہوئے ہیں اس سے متوسط اور نچلے آمدنی والے طبقے کی جانب سے اپنے محدود وسائل میں زندگی کا سلسلہ قائم رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں۔ خود وزیر اعظم متعدد مرتبہ مہنگائی اور لوگوں کی مشکلات کا اعتراف کرچکے ہیں‘ مگر ہماری وزارتیں معاشی نمو کی جو تصویر پیش کر رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ پاکستان کی معیشت بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر واقعتاً ایسا ہوتا تو متوسط اور کم آمدنی والا طبقہ پژمردہ نظر نہ آتا۔ لوگ زیادہ کما رہے ہوتے تو زیادہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوتے۔ انہیں سبزی‘ پھل کی قیمت میں دو چار روپے کے فرق کا اس قدر احساس نہ ہوتا‘ نہ ہی حکومت کو عام آدمی کی ضرورت کی چیزوں پر جنرل سیلز ٹیکس یکمشت 17 فیصد تک بڑھانے کی ضرورت پیش آتی۔ حکومت کے یہ اقدامات معاشی تنزل اور کمزوری کی دلیل ہیں۔ واضح نظر آتا ہے کہ اخراجات پورے کرنے کیلئے براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ حکومت ہدف سے زیادہ ریونیو کو بھی معاشی ترقی کے اشاریے کے طور پر پیش کرتی رہتی ہے حالانکہ ایف بی آر کے ریونیو میں انکم ٹیکس کا حصہ پانچ ارب روپے سے بھی کم ہے‘ باقی سارا پیسہ سیلز ٹیکس سے آتا ہے یا درآمدی اشیا پر عائد ٹیکسوں سے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران تجارتی خسارہ 31 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا‘ جو ایک سال پہلے 23 ارب ڈالر تھا۔ 25.3 ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 56.38 ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔ اضافی درآمدات کا مطلب ہے حکومت کیلئے درآمدی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی زیادہ آمدن۔ اگر صنعتی ترقی واقعتاً ہوتی‘ جیساکہ حکومت دعویٰ کرتی ہے تو نہ صرف یہ کہ عوام کیلئے روزگار کے مواقع زیادہ ہوتے بلکہ زیادہ صنعتی پیداوار زیادہ برآمدات کی صورت میں بھی نظرآتی‘ مگر یہاں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ 2020ء جو کورونا وبا کی وجہ سے تاریخی مندی کا سال تھا اس میں پاکستان نے ساڑھے اکیس ارب ڈالر کے قریب برآمدات کیں جبکہ 2021 میں‘ جب کورونا ماند پڑنے‘ عالمی منڈیاں کھلنے اور مانگ بڑھنے سے تجارت میں نمو کے امکانات کافی بڑھ گئے تھے‘ پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر تک ہو سکیں۔ یہ اضافہ بھی زیادہ تر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا نہ کہ مقدار میں اضافے سے۔